قریش کے
ہاتھوں مسلمانوں پر مظالم
نبی کریم ﷺ نے دعوت و تبلیغ کا کام پوری
تندھی سے جاری رکھا۔ جب قریش کا آپؐ پر بس
نہ چلا تو انہوں نے سارا غصہ ان افراد پر اتارنا شروع کردیاجو کمزور تھے اوران کے
قبیلوں میں ان کے حمایتی موجود نہ تھے۔ سب سے زیادہ مظالم ان غلاموں اور لونڈیوں
پر توڑے گئے جن کا مکہ میں کوئی پشت پناہ نہ تھا۔اس کے علاوہ ہر قبیلہ اپنے ان
لوگوں پر ٹوٹ پڑا جو اسلام کے دائرے میں داخل ہوچکے تھے۔
حضرت بلالؓ حبشی اسلام لائے تو ان کا آقا امیہ بن خلف
دوپہر کو سخت گرمی کے وقت انہیں نکال کر باہر لے جاتا۔ مکہ کی تپتی ہوئی ریت پر
لٹا کر ایک بھاری پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتا اور کہتاکہ اللہ کی قسم تم اس وقت
تک اس حالت میں پڑے رہوگے جب تک محمدؐ کا انکار کرکے لات اورعزیٰ کی عبادت نہ کرنے
لگو۔ لیکن اس قدر سخت آزمائش اور تکلیف کے باوجود وہ جواب میں اَحد،اَحد کہے چلے
جاتے۔بالآخراُنہیں حضرت ابوبکر ؓ نے خرید کر آزاد کیا۔
حضرت عمارؓ، ان کے والد یاسرؓ اور و
الدہ سمیّہ ؓ جب اسلا م لائے توا ن کے آقا سخت گرمی میں ان لوگوں کو باہر لاتے اور
مکہ کی سخت تپش میں ان کو مختلف قسم کی تکلیفیں پہنچاتے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا
گزر اس مقام سے ہوا جہاں ان لوگوں کو عذاب دیا جارہاتھا تو آپؐ کو بے حد رنج ہوا
اور آپؐ نے فرمایا:
’’آل یاسر! ذرا
صبر، ذرا صبر، تمہاری منزل جنت ہے‘‘۔)[1](
آخر کا ر اُن کے والد حضرت یاسرؓ کا
انتقال اسی حالت میں ہوااور والدہ حضرت سمیہ ؓ کو ابوجہل نے شہید کردیا۔ اور وہ
اسلام کی پہلی شہیدہ قرار پائیں۔
حضرت خباب ؓ بن الارت نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم خودبیان کرتے
ہوئے فرمایا:
مشرکین ایک دن مجھے پکڑکر لے گئے، آگ جلاکر مجھے
گھسیٹا،پھر مجھے اس آگ میں ڈال دیا، پھر ایک شخص میرے سینے پر کھڑا ہوگیا۔ میری
چربی کے پگھلنے سے بالآخر آگ بجھ گئی۔
یہ بیان کرنے کے بعد حضرت خبابؓ نے
اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی جو بالکل برص کے مریض کی کھال جیسی ہورہی تھی۔
حضرت عثمانؓ بن عفان کا چچا انہیں
کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتااور نیچے سے دھواں دیاکرتا۔
حضرت مصعب ؓ بن عمیر، مکہ کے خوش
پوشاک اور نازونعم میں پلے ہوئے نوجوان تھے۔ جب ان کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا
علم ہوا تو ان کو ہر سہولت سے محروم کر دیا اور انہیں گھر سے نکال دیا۔
غرض قریش کے لوگوں نے طرح طرح کے
مظالم ان کمزور اور بے بس مسلمانوں پر ڈھائے۔ لیکن ان سعید روحوں نے کفر کے مقابلے
میں اسلام کو پسند کیا اور ہر طرح کی تکالیف کا مقابلہ کیا۔
نبی کریم ﷺکے ساتھ قریش کی بدسلوکی
قریش کا ظلم وجور عام مسلمانوں پر
بڑھتا چلا گیا لیکن اس تمام تر ظلم و ستم کے باوجود ان پاکیزہ روحوں نے اسلام کو
نہیں چھوڑا اور قریش کی تمام کوششیں اور حربے انہیں دین اسلام سے پھیرنے میں ناکام
رہے۔ اہل مکہ کا ظلم و ستم عام مسلمانوں سے
بڑھتے بڑھتے مکہ کے معزز اور خاندانی لوگوں پر بھی شروع ہوچکا تھا لیکن نبی
کریم ﷺکی ذات مبارکہ کے حوالے سے ان کے ہاتھ اب تک رکے ہوئے تھے۔ مگر بالآخر ان کی
برداشت جواب دے گئی اور نبی کریم ﷺ کو تنگ کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کے لیے آپؐ
پر بھی ظلم وجور کا آغاز کردیا۔ مشرکین نے باہم سرجوڑ کر آپؐ کے خلاف ابولہب کی
سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جس کا مقصد آپؐ
کو تنگ کرنا اور آپؐ کی دعوت کا
مذاق اڑانا تھا۔
آپ کے خلاف ابو لہب کا رویہ شروع دن ہی سے معاندانہ
تھا۔بعثت سے پہلے ابولہب نے اپنے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کی شادی نبی کریم ﷺ کی
دو صاحبزادیوں رقیہ ؓ اور ام کلثوم ؓ سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے ان دونوں
کو طلاق دلوادی۔
اس سے بھی زیادہ کمینی حرکت یہ تھی
کہ نبی کریم ﷺ کے پہلے صاحبزادے قاسم کے
کم سنی میں وفات پاجانے کے بعد جب آپؐ کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ کا بھی انتقال
ہوا تو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور
انہیں یہ ’’خوشخبری‘‘ سنائی کہ محمد ؐ
نعوذ باللہ ابتر (جس کی نسل ختم ہوگئی ہو) ہوگئے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے
سورۂ کوثر میں فرمایا:
اِنَّ
شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ )[2](
’’ اے نبیؐ ! تمہارے دشمن ہی ابتر
ہوگئے‘‘۔
ابولہب نبی کریمﷺ کی تکذیب کے لیے
بازاروں میں آپؐ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اورلوگوں کو آپؐ کی بات سننے سے روکتا
تھا۔اس پر بس نہیں کرتاتھا بلکہ پتھر بھی
دے مارتا تھا جس سے آپؐ کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں۔
ابولہب کی بیوی ام جمیل، جس کا اصل
نام اَرْویٰ تھا، نبی کریم ﷺ کی دشمنی میں اپنے شوہر سے کم نہ تھی۔ وہ نبی ﷺ کے
راستے میں اور دروازے پر رات کے وقت کانٹے ڈال دیا کرتی تھی، بد زبان اور فساد
برپا کرنے والی عورت تھی، آپ کے خلاف بدزبانی کرنا اور لگائی بجھائی کرنا اس کا
شیوہ تھا، اسی لیے قرآن نے اس کو حمالۃ الحطب (لکڑیاں ڈھونے والی یا لگائی بجھائی کرنے والی) کہاہے۔
ابولہب آپؐ کا چچا اور پڑوسی ہونے
کے باوجود یہ ساری حرکتیں کررہا تھا۔ اسی بنا پر قرآن مجید نے فرمایا کہ ٹوٹ گئے
ہاتھ ابولہب کے، یعنی اس کی ساری تدبیریں غارت ہوگئیں۔)[3](
قریش کا ایک اور سردار عقبہ بن ابی
معیط اپنی بدبختی اور خباثتوں میں حد سے
بڑھاہوا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے :
ایك مرتبہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں
نمازپڑھ رہے تھے،قریش بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوجہل بولا کہ آج شہر میں فلاں جگہ
اونٹ ذبح ہوا ہےاور اس کی اوجھڑی پڑی ہوئی
ہے، کوئی جائے، اٹھالائے اور جب محمدؐ سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے۔ اس پر
شقی القلب عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ نجاست بھری اوجھڑی اٹھالایا۔ جب نبی کریمﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تواسے آپؐ کی پیٹھ پر رکھ دیا۔ اس کے بعد کفار ہنسی کے
مارے ایک دوسرے پر گرنے لگےاور لوٹ پوٹ ہونے لگے جب کہ نبی کریم ﷺ سجد ے ہی میں
پڑے رہے،سر نہ اٹھا سکے۔ (ابن مسعود فرماتے ہیں کہ) میں یہ سارا ماجرا دیکھ رہا
تھا لیکن کافروں کا ہجوم دیکھ کرکچھ نہیں
کرسکتا تھا، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ آئیں
اور انہوں نے آپؐ کی پشت مبارک سے اوجھڑی اٹھا کر پرے پھینک دی اور ان سنگ دل
لوگوں کی سخت سرزنش کی۔ تب آپؐ نے سر اٹھایا، پھر تین بار فرمایا:
اللھم علیک بقریش )[4](
’’اے اللہ تو
قریش کو پکڑ لے۔ ‘‘
جب آپؐ نے بددعا کی تو وہ بہت ڈر
گئے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔
ابوجہل بھی آپؐ کو ایذاء پہنچانے
میں کسی سے کم نہ تھا۔ وہ نبی کریم ﷺ کو
اپنی بات سے اذیت پہنچاتا اور اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ پھر اپنی اس حرکت
اوربرائی پر ناز اور فخر کرتا ہوا جاتا تھا، گویا اس نے کوئی بہت ہی قابل ذکر
کارنامہ انجام دیا ہے۔
ابوجہل نے جب پہلے دن آپؐ کو نماز
پڑھتے ہوئے دیکھا تھا، اسی دن سے آپؐ کو نماز سے روکتا رہا۔ ایک بار نبی ﷺ مقام
ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا وہاں سے گزر ہوا، دیکھتے ہی بولا :
’’محمد! کیا میں نے تمہیں اس سے منع
نہیں کیا تھا‘‘؟
ساتھ ہی اس نے دھمکی بھی دی۔ نبی کریمﷺ نے بھی
ڈانٹ کر سختی سے جواب دیاجس پر وہ کہنے لگا:
اے محمد! مجھے کس بات کی دھمکی دے رہے ہو۔ اللہ
کی قسم اس وادی (مکہ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل
فرمائی:
فلیدع
نادیہ سندع الزبانیۃ )[5](
’’اچھا تو وہ
بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)‘‘
ایک روایت میں مذکور ہے کہ نبی
کریمؐ نے اس کا گریبان گلے کے پاس سے پکڑلیا اور جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا:
اولٰی لک فاولٰی
ثم اولٰی لَک فاولٰی )[6](
’’تیرے
لیے بہت ہی موزوں ہے، تیرے لیے بہت ہی موزوں ہے‘‘۔
اس پر یہ دشمن خداکہنے لگا:
اے محمدؐ، مجھے دھمکی دے رہے ہو۔ اللہ کی قسم تم اور تمہارا پروردگار
میرا کچھ نہیں کرسکتے۔ میں مکے کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے پھرنے والوں میں
سب سے زیادہ معزز ہوں۔
غرض مشرکین نے ہر طرح سے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ ؓ کو اذیتیں پہنچائیں اور انہیں تنگ کیا۔
ہجرت حبشہ
حالات جب ناقابل برداشت ہوگئے اور قریش کے ظلم و ستم کی بنا پر مسلمانوں کا مکہ میں رہنا دوبھر ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
اپنے اصحاب ؓ کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت
دے دی۔ رجب ۵ نبوی میں نبی کریمؐ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
لوخرجتم الی الارض الحبشۃ فان بھا ملکا
لا یظلم عندہ احد وھی ارض صدق حتٰی یجعل اﷲ لکم فرجًا مماانتم فیہ
اچھا ہوکہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جاؤ۔وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی
پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سرزمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو دور
کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ کرے تم لوگ
وہاں ٹھہرے رہو۔)[7](
چنانچہ آپؐ کے اس ارشاد کے مطابق
حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی جس میں ۱۲ مرد اور ۴ عورتیں شامل تھیں۔ حضرت عثمانؓ بن
عفان ان کے امیر تھے۔ ان کے ہمراہ نبی کریم
ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ بھی تھیں۔ ان کے بارے میں نبی كریم ﷺنے فرمایا:
’’ لوط علیہما
السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘۔)[8](
ان لوگوں نے نہایت رازداری کے ساتھ
بحر احمر کی بندرگاہ شعیبہ کا رخ کیاتاکہ قریش کوان کی روانگی کا علم نہ ہوسکے۔
خوش قسمتی سے وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں۔ قریش کے لوگوں کو ان کی روانگی کا
علم قدرے تاخیر سے ہوا۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا اور ساحل تک جا پہنچے لیکن یہ
مختصر قافلہ بروقت کشتی میں سوار ہوکر حبشہ کی طرف روانہ ہوگیا اور گرفتار ہونے سے
بچ گیا۔ یوں قریش نامراد واپس لوٹ آئے۔ حبشہ قریش کے لیے جانی پہچانی بندر گاہ تھی
جہاں وہ خوب تجارت کرکے رزق کماتے تھے، اس بنا پر ان مہاجرین کو وہاں پہنچ کر کوئی
مشکل پیش نہ آئی اور وہ سکون سے رہنے لگے۔
مہاجرین کی واپسی اور اس کا سبب
اسی سال رمضان میں ایک ایسا واقعہ
پیش آیا جس کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو اس شکل میں پہنچی کہ مکہ کے مشرکین مسلمان
ہوگئے ہیں۔
واقعہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم ایک دن حرم پاک تشریف لے گئے جہاں قریش کے لوگوں کا بڑا مجمع تھا جن
میں ان کے بڑے بڑے سردار اور نامور لوگ موجود تھے۔ آپؐ نے ایک دم کھڑے ہوکر سورہ نجم کی
تلاوت شروع کردی۔ کلام الٰہی کی شدتِ تاثیر اور عظمت و جلال کا یہ حال تھا کہ
مخالفین کو کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب اس آواز کو سننے میں محو ہوگئے اور کسی شخص کے
دل میں کسی اور خیال کا گزر نہ ہوا،یہاں
تک کہ جب آپؐ نے سورۃ کے خاتمے پر آیت سجدہ تلاوت کر کے سجدہ فرمایا تو سب حاضرین
بھی سجدہ میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار جو مخالفت میں پیش پیش تھے،
سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔ بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ قرآن کی شدّت تاثیر اور
جلال سے متاثر ہوکر ان سے ٹھیک وہی کام ہو گیا جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے
انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا تو انہیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم
سے کیا کمزوری سرزد ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ان مشرکین نے جو اس موقع پر وہاں موجود
نہ تھے، ان پر لعن طعن کی تو انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے نبی کریم ﷺ پر یہ بہتان باندھا اور جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان
کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ تلک الغرانیق العلی وان شفاعتین لترتجی) یہ بلند پایا دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت
کی اُمید کی جاتی ہے(۔اس
لیے ہم نے سمجھا کہ محمدﷺ ہمارے طریقے پر آگئے ہیں۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو
محض اس لیے گھڑ لیا گیا تھا کہ نبیؐ ﷺکے ساتھ سجدہ کرنے کی جو غلطی ہوگئی ہے اس کے
لیے ایک معقول عذر پیش کیا جاسکے۔ یہ سوچ کسی دیوانے ہی کی
ہوسکتی ہے کہ سورۂ نجم کے اس سیاق و سباق میں ان فقروں کی کوئی گنجائش نکل سکتی
تھی۔ )[9](
بہرحال یہ خبر مشہور ہوکر حبشہ اس
شکل میں پہنچی کہ کفارِ مکہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مہاجرین نے مکہ واپسی کی راہ لی لیکن ایک دن کے فاصلے پر آنے کے بعد جب ان پر حقیقت
آشکار ہوئی تو کچھ لوگ پلٹ کر حبشہ چلے گئے اورباقی لوگ قریش کے کسی نہ کسی سردار
کی پناہ لے کر مکہ میں داخل ہوگئے۔
دوسری ہجرت حبشہ اور قریش کا تعاقب
اس کے بعد ان مہاجرین
پر بطور خاص اور مسلمانوں پر بالعموم قریش کا ظلم
وستم اور تشدد بڑھ گیا۔ قریش نے ان افراد کو خوب ستایا۔ جب مکہ میں ظلم حد سے بڑھ
گیا اور نبی کریمﷺ نے دیکھا کہ حبشہ مسلمانوں کے لیے امن و سکون کی جگہ ثابت ہوا
ہے تو آپؐ نے ان مظلوم مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ یہ لوگ پھر حبشہ ہجرت کر
جائیں۔ چنانچہ ۶ نبوی میں دوسری ہجرت واقع ہوئی۔ اگرچہ قریش نے اس دفعہ مسلمانوں
کو ہجرت سے روکنے کی بھرپور کوشش کی اور نکلنے والوں کو بہت تنگ کیا اور ان کے
راستے میں سخت مشکلات کھڑی کیں لیکن مسلمانوں نے استقامت اور مستعدی کا ثبوت دیا
اور اللہ نے ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادیں چنانچہ یہ افر اد قریش کی گرفت میں
آنے سے پہلے ہی حبشہ پہنچ گئے۔ اس دفعہ کل ۸۳ مردوں اور ۱۸ عورتوں نے ہجرت کی)[10](۔
مہاجرین کو واپس لانے کے لیے قریش کی تدابیر
اس ہجرت سے مکہ کے ہر گھر میں کہرام
مچ گیا۔ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کا کوئی نہ
کوئی فرد ان مہاجرین میں شامل نہ ہو۔ اب قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور
مہاجرین کو واپس لانے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ قریش کو اس بات کا بھی رنج اور غصہ
تھا کہ مہاجرین حبشہ میں چین اور امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔لہٰذا انہوں نے عبداللہ
بن ربیعہ اور عمرو بن عاص کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے، ایک اہم سفارتی مہم
کے لیے منتخب کیا اور انہیں نہایت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا۔
نجاشی کے دربار میں
یہ دونوں ماہرین سیاسیات، قریش کے
سفیروں کی حیثیت سے حبشہ پہنچے۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیانِ سلطنت اور پادریوں
میں ہدیے اور تحفے تقسیم کیے اور انہیں اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ مہاجرین کو
واپس کرنے کے لیے بادشاہ پر زور ڈالیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور تحفے تحائف پیش
کرنے کے بعد اپنا مدعا یوں بیان کیا:
اے بادشاہ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ
نوجوان بھاگ کر آگئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے لیکن آپ کے دین
میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں
نہ آپ۔ قوم کے اشراف نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان
کے پاس واپس بھجوادیں۔)[11](
اس پر پادریوں اور اہل دربار نے کہا:
بادشاہ سلامت یہ دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ
ان جوانوں کو ان کے حوالے کردیں۔ ان کی قوم کے لوگ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ ان میں
کیا عیب ہے۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں۔
لیکن نجاشی نے ان کی بات کو رد
کردیا اور تحقیق کی غرض سے مسلمانوں کو
بلا بھیجا۔ نجاشی کا پیغام پا کر مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ نجاشی کے دربار
میں ہم سچ ہی بولیں گے اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کو بلاکم و کاست پیش کریں گے خواہ
اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔
جب مسلمان آگئے تو نجاشی نے ان سے
پوچھا:
یہ تم نے اپنی قوم سے علیحدہ ہوکر کونسا دین
اختیار کرلیا ہے کہ میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور نہ دنیا کے دوسرے ادیان
ہی میں کسی کو اختیار کیا؟
حضرت جعفر ؓ کی تقریر
اس پر مسلمانوں کی جانب سے ان کے
ترجمان حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
اے بادشاہ! ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں
مبتلا تھی۔ ہم بت پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے۔ بدکاریاں کرتے تھے، قرابت داروں سے
تعلق توڑتے تھے۔ ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقت ور کمزور کو
کھارہا تھا۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا، اس کی
عالی نسبی، سچائی، امانت اور پاک دامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ
کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں۔اس
کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑدیں۔ اس نے ہمیں
سچ بولنے، امانت ادا کرنے، قرابت جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و
خوں ریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اورفواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال
کھانے اور پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم
دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں
نماز، روزہ اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا۔)[12](
حضرت ام سلمہؓ
جنہوں نے یہ حدیث ر وایت کی ہے،
فرماتی ہیں کہ اس طرح جعفر ؓ نے اسلام کے دوسرے احکام بتائے، پھر کہا:
ہم نے اس پیغمبر کوسچا مانا، اس پر ایمان لائے
اور اس کے لائے ہوئے دین خداوندی میں اس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی
عبادت کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جس چیز کو اس نے حرام بنایا اسے ہم
نے حرام جانا، اور جس کو حلال بنایا اسے حلال جانا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ
گئی، اس نے ہم پر ظلم وستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور
سزاؤں سے دوچار کیا تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور
جن گندی چیزوں کوحلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ آخر کار جب انہوں نے
ہم پر سختی کی اور ظلم ڈھایا، زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے
درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو
ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا۔ اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ! آپ
کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
حضرت جعفر ؓ کا خطاب سن کر نجاشی نے
کہا:
’’وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ
تمہارے پاس ہے‘‘؟
حضرت جعفر ؓ نے کہا:
’’ہاں‘‘۔
نجاشی نے کہا:
’’ذرا مجھے بھی
پڑھ کر سناؤ‘‘۔
حضرت جعفر ؓ نے سورہ مریم کی
ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جو حضرت یحیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے متعلق تھیں۔ نجاشی
اُن کو سن کر اِس قدر رویا کہ اُس کی ڈاڑھی تر ہوگئی، اس کے تمام پادری بھی رودیے
اور ان کے مصاحف آنسوؤں سے تر ہوگئے۔ پھر نجاشی نے کہا :
’’یہ کلام اور
وہ کلام جو عیسیٰ ؑ لے کر آئے تھے دونوں ایک
ہی سرچشمے سے نکلے ہیں‘‘۔
اس کے بعد نجاشی نے قریش کے سفیروں
سے مخاطب ہو کر کہا :
تم دونوں چلے جاؤ میں ان لوگوں کو تمہارے
حوالے نہیں کرسکتا اور نہ یہاں ان کے خلاف کوئی چال چلی جاسکتی ہے۔
اس حکم پر وہ دونوں وہاں سے نکل
آئے، لیکن پھر عمرو بن عاص نے عبداللہ بن ربیعہ سے کہا:
’’ اللہ کی قسم
کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا جو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دے گی‘‘۔
عبداللہ بن ربیعہ نے جواب دیا:
نہیں ایسا نہ کرنا، ان لوگوں سے اگر چہ ہمارے
اختلافات ہیں، لیکن ہیں بہرحال اپنے ہی کنبہ، قبیلے کے لوگ۔
مگر عمرو بن عاص اپنی رائے پراڑے رہے۔)[13](
[1]
ایضاً: 1/230۔
[2]
سورة الكوثر: 3۔
[3]
ابن ہشام : 1/355۔
[4]
صحیخ البخاری:
240۔
[5]
سورۃ العلق:17
-18۔
[6]
سورة القیٰمۃ :۳۴، ۳۵۔
[7]
ابن ہشا م: 1/321۔
[8]
البدایة
والنہایة:4/167، وزاد المعاد:1/24۔
[9]
رحمة للعالمین:
1/61۔
[10]
رحمة للعالمین: 1/61۔
[11]
ایضاً:1/61۔
[12]
رحمة للعالمین:
1/61۔
[13]
ابن ہشام اور دیگر
سیرت نگاروں نے اس كو تفصیل سے بیان كیا ہے دیكھیے، ابن ہشام:1/334،335،336۔
0 Comments