آغازِ وحی
سورۂ مدثر میں واضح طور پر نبی کریم
ﷺکی نبوت کے مقاصد کو بیان کیاگیا ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺکی رسالت
اور نبوت کے کیا مقاصد تھے اور آپؐ کو کیا ہدایات دی گئی تھیں:
۱۔ اس موقع پر آپؐ کو
حکم دیاگیا کہ اُٹھو اور اپنے گردو پیش اللہ کے نافرمانوں کو جو خواب غفلت میں پڑے
ہوئے ہیں، خبردار کردو اور انہیں اس انجام سے ڈراؤ جس سے وہ یقینا دو چار ہوں گے۔
۲۔ اللہ کی ربوبیت اور
اس کی بڑائی اور کبریائی کو بیا ن کرنا۔ یہ ایک نبی کا اوّلین فریضہ ہے جسے اس
دنیا میں اسے انجام دینا ہے۔ اس کا پہلا کام ہی یہی ہے کہ جاہل انسان اس دنیا میں
جن کی بڑائی مان رہے ہیں، ان کا انکار اور ان کی نفی کردے اور اعلان کردے کہ دنیا
میں بڑائی ایک اللہ کے سوا کسی کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر
کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
۳۔ لوگوں کو
اعتقاد،اعمال اور اخلاق کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے پاک رہنے کی تعلیم دینا۔نبی
کریم ﷺجس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر ا ٹھے تھے وہ عقائد اور اخلاق کی برائیوں
میں مبتلا تھا۔ لہٰذا ضروری تھا کہ شرک کے مقابلے میں توحید کا عَلم بلند کیا جائے
اور روحانی نجاستوں سے اِس معاشرے کے رہنے والوں کو پاک کیا جائے۔
۴۔ پاکیزگی، صفائی اور
پاک دامنی سکھانا۔ اسی لیے کہا گیا کہ اپنے کپڑے پاک رکھو۔ ان الفاظ میں بڑی
جامعیت ہے اوران کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ان کا مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست
سے پاک رکھو کیونکہ جسم و لباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم
ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔
۵۔ لوگوں کو کسی ذاتی
غرض کے بغیر تعلیم دینا، نہ ان پر احسان جتانا اور نہ اس کے ذریعہ سے اپنی ذات کے
لیے کوئی فائدہ حاصل کرنا۔
۶۔ اپنے رب کی خاطر
صبر کرنا۔ یعنی جو کام تمہارے سپرد کیا جارہا ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بڑے
جان جوکھوں کا کام ہے۔اس کام میں سخت مشکلات، مصائب اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ
پیش آئے گا اور ساری قوم تمہارے خلاف ہوجائے گی۔ان سب کو برداشت کرنا، اپنے رب کی
خاطر صبر کرنا اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام
دینا۔
نماز کا آغاز
اقرارِ توحید اور بتوں سے براءت کے
اعلان کے بعد سب سے پہلی چیز جو فرض کی گئی وہ نماز تھی۔
امام احمدؒ نے ابن لَھِیعَہ کی
روایت حضرت زید ؓ بن حارثہ سے نقل کی ہے کہ نبی کریمﷺپر پہلی مرتبہ وحی نازل ہونے
کے بعد جبریل ؑ آپؐ کے پاس آئے اورانہوں نے آپؐ کو وضو کی تعلیم دی۔ اس کی تشریح
کرتے ہوئے ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ
مکہ کے بالائی حصہ میں تھے۔ جبریل ؑ امین بہترین صورت اور بہترین خوشبو کے
ساتھ آپؐ کے سامنے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے محمد ﷺ ! اللہ نے آپؐ کو سلام
کہا ہے اور فرمایا ہے کہ آپؐ جن و انس کی طرف میرے رسول ہیں۔ اس لیے آپؐ لااِلہ
الا اﷲ کی طرف ان کو دعوت دیں۔ پھر انہوں نے زمین پر پاؤں مارا جس سے پانی کا ایک
چشمہ اُبل پڑا اور انہوں نے وضو کر کے دکھایاتاکہ آپؐ نماز کے لیے پاک ہونے کا
طریقہ سیکھ لیں۔ پھر آپؐ سے کہا کہ اب آپؐ وضو کریں۔ پھر جبریل ؑ نے نبی کریمؐ کے
ساتھ دو رکعتیں چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔
اس کے بعد نبی کریمؐ حضرت خدیجہؓ کو وہاں
لائے اور وضو کرایا او ر دو رکعتیں ان کے ساتھ پڑھیں۔ بس یہ پہلا فرض تھا
جو نزول قرآن کے فوراً بعد مقرر کیاگیا۔)[1](
حضرت خدیجہؓ کا قبول اسلام
سب سے پہلے حضرت خدیجہ ؓ نے اسلام
قبول کیا۔رشتۂ زوجیت کی وجہ سے ان کو آپؐ کی خدمت و رفاقت کا موقع میسرتھا۔ انہوں
نے ہر موقع پر آپ کی نصرت و ا عانت فرمائی اور آپ ﷺ کی پشت پناہی اور حمایت کی۔
لوگوں سے آپؐ کو جو تکالیف پہنچتی تھیں ان میں وہ ہمیشہ آپؐ کا ساتھ دیتیں اور آپؐ
کی ہمت بندھاتی تھیں۔
حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید ؓ کا قبو ل اسلام
اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بعد
آپؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ بن حارثہ، آپؐ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ بن ابی
طالب، جوآپؐ کے زیر کفالت تھے اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ اسلام لائے۔ ان اشخاص کا قبو
ل اسلام جو آپؐ کی چالیس سالہ زندگی کے کھلے چھپے لمحات اور آپؐ کے صدق و اخلاص
اور حُسن کردار سے سب سے زیادہ واقف تھے اور گھروالوں کی طرح ان سے آپ کی کوئی
چیز پوشیدہ نہ تھی، نبی کریم ؐ کی اعلیٰ صداقت اور راست بازی کی قوی دلیل تھی۔
دعوت کے مراحل ( خفیہ دعوت و تبلیغ کا تین سالہ دور)
اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبوت عطا
ہونے کے بعد نبی کریم ﷺنے لوگوں کو یک دم ہی دعوتِ عام دینے سے اپنے کام کا آغاز
نہیں کیا۔ حکمت کا تقاضاتھا کہ پہلے پہل دعوت و تبلیغ کا کام پس پردہ انجام
دیاجائے تاکہ اہل مکہ کی جانب سے فوراً ہی مخالفت اور مخاصمت کا آغاز نہ ہوجائے۔
اس بنا پر ابتدائی تین سال تک آپؐ خفیہ طریقے سے اسلام کو ان پاکیزہ روحوں تک
پہنچاتے رہے جو محض دلیل و برہان سے شرک کو چھوڑ دینے اور توحید کو قبول کرنے پر
آمادہ ہوسکتی تھیں۔ سب سے پہلے آپؐ نے اسلام کی دعوت ان لوگوں کو دی جن سے آپؐ کا
قریبی اور گہرا تعلق تھا اور جن پریہ اعتماد کیا جاسکتاتھا کہ وہ اپنے اسلام کو
اور اس دعوت کو اس وقت تک راز میں رکھیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے دعوت عام
کی اجازت نہیں مل جاتی۔
اس کام میں سب سے زیادہ حضرت ابوبکر
صدیق ؓ کے اثرات کارگر ثابت ہوئے۔
آپؓ کا اصل نام عبداللہ بن عثمان تھا لیکن
آپؓ کی کنیت، ابوبکرؓ، اس قدر مشہور ہوئی کہ اصل نام اِس کے پیچھے چھپ گیا۔ حضرت
ابوبکرؓ نہایت ملنسار، خوش خلق اپنی قو م میں اپنی خوبیوں کی وجہ سے بہت مقبول اور
ہر دلعزیز تھے۔ آپؓ بڑے مال دار تھے، مکہ میں تجارت کرتے تھے اوراپنے حسنِ معاملہ
کے لیے مشہور تھے۔ ان کی دانش مندی، فہم و فراست اور حسنِ صحبت کی وجہ سے لوگ
بکثرت ان سے ملتے اور ان کے پاس آکر بیٹھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پا س آنے
جانے والوں میں سے جس کو قابل اعتماد پایا اسے اسلام کی دعوت دی۔ ان کی تبلیغ سے
متاثر ہوکر بے شمار لوگ مسلمان ہوگئے۔ ان کی کوشش سے مسلمان ہو نے والوں میں حضرت
عثمانؓ بن عفان، حضرت زبیر ؓ بن العوام، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف، حضرت سعدؓبن ابی
وقاص اور حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ قابل ذکر
ہیں۔
شروع شروع میں جو لوگ اسلام لائے ان
میں حضرت بلال حبشی ؓ بھی شامل تھے۔ ان کے بعد امین الامت حضرت ابوعبیدہ ؓعامر بن
الجراح، ابو سلمہؓ بن عبدالاسد، ارقم ؓ بن ابی ارقم، عثمان ؓ بن مظعون، ان کے
دونوں بھائی قدامہ ؓ اور عبداللہؓ اور عبیدہ ؓ بن حارث، سعیدؓبن زید، اور ان کی
بیوی فاطمہؓ بنت خطاب، عبداللہ بن مسعود ؓ اور دوسرے کئی افراد مسلمان ہوئے۔ اسلام
قبو ل کرنے والے ان افراد کا تعلق قریش کی تمام شاخوں سے تھا۔ خفیہ دعوت کے اس تین
سالہ دور میں آپؐ پر ایمان لانے والے مسلمانوں کی کل تعداد ۱۳۳ تھی۔)[2](
یہ لوگ چھپ چھپ کر مکہ کی گھاٹیوں
میں نماز پڑھتے تھے تاکہ کسی کو ان کی تبدیلیِ دین کا پتہ نہ چل سکے۔
دارِارقم، دعوت و تبلیغ کا پہلا مرکز
ایک روز مسلمان مکہ کی ایک گھاٹی
میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو سخت سست
کہا۔ بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے ایک شخص کو
اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ اس کے فوراً بعد نبی کریم ﷺ نے حضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ کے مکان کو، جو صفا کے قریب واقع تھا دعوت و
تبلیغ کا مرکز بنادیا۔ جو لوگ مسلمان ہوتے وہ یہاں آکر جمع ہوتے اور نماز پڑھا
کرتے۔ تین سال کی خفیہ دعوت کے دوران میں اور علانیہ دعوت عام شروع ہونے کے بعد
بھی یہ مسلمانوں کا مرکز رہا اور دعوت اسلام میں دارِارقم کو مرکزی حیثیت حاصل
رہی۔)[3](
تین سال تک تبلیغ اور دعوت کاکا م
خفیہ رہا۔ اسی دوران میں اہل ایمان کی ایک جماعت تیار ہوگئی جو دوسرے لوگوں تک
انفرادی طور پر اس عظیم دعوت کو پہنچانے لگی۔
دعوت عام کی ابتداء
اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسلام کے
کھلم کھلا تبلیغ کا اذن ہوا تو سب سے پہلے نبی کریمﷺ نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر
حرم میں جاکر نماز پڑھنی شروع کی۔ آپؐ کے اس طرح نماز پڑھنے سے قریش کے عام لوگوں
نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ آپ ﷺ کا دین ان کے دین سے الگ اور جدا ہے۔ دوسرے
دیکھنے والوں کے لیے یہ عمل باعث حیرت تھا، مگر ابوجہل نے آپؐ کو دھمکیاں دے کر اس
سے روکنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ
ابوجہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا:
’’ کیا محمدﷺ
تمہارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں‘‘؟
لوگوں نے کہا:
’’ ہاں‘‘۔
اس نے کہا :
لات اورعزیٰ کی قسم، اگر میں نے ان
کواس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پاؤں رکھ دوں گا اور ان کا
منہ زمین پر رگڑ دوں گا۔
پھر ایسا ہوا کہ نبی کریمﷺ کو نماز پڑھتے دیکھ
کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپؐ کی گردن پر پاؤں رکھے مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ
پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ جب اس سے پوچھا
گیا کہ تجھے یہ کیا ہوگیاتو اس نے جواب دیا :
’’میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک
ہولناک چیز تھی، اور کچھ پر تھے‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’اگر وہ میرے
قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اڑادیتے‘‘۔)[4](
قریب ترین رشتہ داروں کو دعوت
دوسرے مرحلے میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم
وَاَنْذِرْ
عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ )[5](
(آپ ؐ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو ڈرائیے)
کے مطابق اپنے خاندان کے قریب ترین افراد کو اپنے ہاں مدعو کیا جن میں بنی ہاشم
اور بنی عبدالمطلب کے علاوہ بنی المطلب اور بنی عبدمناف کے افراد بھی شامل تھے۔ اس دعوت میں کل
پینتالیس (۴۵) آدمی شریک ہوئے مگر قبل اس کے کہ نبی کریم ﷺ اپنی بات کہتے ابولہب
بول اٹھا :
دیکھو یہ تمہارے چچا اور چچا زاد
بھائی موجود ہیں۔ بات کرو، لیکن نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان
تمہاری طرف سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں
پکڑلوں، پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر
قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب
بھی ان کی امداد کریں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے خاندان والوں کے لیے
تم سے بڑھ کر کوئی سخت آفت لایاہو۔
اس طرح ابولہب نے پہلی مجلس خراب
کردی۔ اس پر نبی کریم ﷺنے خاموشی اختیار کرلی اور اس موقع پر کوئی گفتگو نہ فرمائی)[6](۔
اس کے بعد آپؐ نے انہیں دوبارہ جمع
کیا اوران کے سامنے اپنی دعوت پیش کی۔ اس موقع پر ابوطالب نے کہا :
میں دین عبدالمطلب کو تو نہیں چھوڑ
سکتا، مگر جس کام کا تم کو حکم دیاگیاہے اسے تم کرو،میں تمہاری حمایت اورحفاظت
کروں گا۔
ابولہب بولا:
’’خداکی قسم یہ
بہت بری بات ہے۔ اس کا ہاتھ پکڑو قبل اس کے کہ دوسرے اس کو پکڑیں‘‘۔
ابوطالب نے کہا:
’’اللہ کی قسم
ہم اس کی حفاظت کریں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے‘‘۔
معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس موقع
پر نبی کریم ﷺنے جو تقریر فرمائی اس میں آپ نے نام لے لے کر فرمایا:
یا فاطمة بنت محمد، یا صفیة
بنت عبد المطلب، یا بنی عبد الملطب لاأملك لكم من اللہ شیئا، سلونی من مالی ما
شئتم
اے محمد كی بیٹی فاطمہ، اے عبد
المطلب كی بیٹی صفیہ، اے اولاد عبد المطلب، میں اللہ كی پكڑ سے تم كوبچانے كا كوئی
اختیار نہیں ركھتا البتہ میرے مال میں سےتم جو چاہو مجھ سے مانگ سكتے ہو۔)[7](
یہ صرف رشتہ داروں کو دعوتِ حق نہیں تھی بلکہ اس بات کا اظہار بھی تھا کہ اللہ کا دین بے لاگ ہے، اس
میں نبی کے قریب ترین عزیزوں کے لیے بھی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک روز نبی کریم ﷺ نے صبح سویرے
صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہوکر پکارا :
’’یا صباحاہ‘‘
(ہائے صبح کا خطرہ)۔
یہ نعرہ عربوں کے لیے جانا پہچانا
تھا اوراس وقت لگایا جاتاتھا جب کسی دشمن یا فوج کے حملہ کافوری خطرہ ہوتا۔
آپؐ نے پکارا:
اے قریش کے لوگو! اے بنی کعب بن لوی، اے بنی
مرہ، اے آل قصی،اے بنی عبد مناف، اے بنی عبد شمس، اے بنی ہاشم، اے آل عبدالمطلب۔۔۔۔۔
اسی طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور
خاندان کا نام لے لے کر آپؐ نے آواز دی۔
یا صباحاہ کا نعرہ سننا تھا کہ قریش
کے سارے لوگ وہاں جمع ہوگئے اور جو خود نہ آسکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ جب
سب لوگ جمع ہوگئے توآپؐ نے فرمایا:
’’لوگو!اگر میں
تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کی دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتاہے
تو تم میری بات کو سچ مانوگے‘‘؟
سب نے کہا:
’’ ہاں، ہمارے
تجربے کے مطابق تم کبھی جھوٹ بولنے والے نہیں رہے ہو‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اچھا تو میں تم کو خبردار کرتا ہوں،
اللہ کا سخت عذاب آنے سے پہلے اپنی جانوں کو اس کی پکڑسے بچانے کی فکر کرو۔
اس پر ابولہب نے کہا:
’’تو غارت ہو،
کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا‘‘؟
اس پر سورۃ تبت یَدَابی لہب نازل
ہوئی:
تَبَّتْ
یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ )[8](
’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود غارت
ہوا۔‘‘
دعوت و تبلیغ کا حکیمانہ انداز
کوہ صفا پر لوگوں کواس طرح اسلام کی
طرف دعوت دینا دراصل تبلیغ کا حکیمانہ انداز تھااور اس مثال کے ذریعے سے اہل مکہ
پر اسلام کی دعوت اور اللہ کی وحدانیت کو واضح کرنا تھا۔
نبی ﷺ نے اس موقع پر فرمایا:
یہ سب کچھ سمجھانے کے لیے ایک مثال
تھی۔ اب یہ یقین کرلو کہ موت تمہارے سرپر آرہی ہے اور تمہیں اللہ کے سامنے حاضر
ہونا ہے۔ اور میں عالم آخرت کو بھی ایسا ہی دیکھ رہا ہوں جیسے دنیا پر تمہاری نظر
ہے۔
تبلیغِ عام
اپنے خاندان، قرابت داروں اور قبیلے
کے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے بعد نبی کریم ﷺ نے مکہ کے عام لوگوں میں
تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ جب تک آپؐ مکہ مكرمہ میں مقیم رہے، ہر حال میں اور ہر
جگہ لوگوں کو قرآن سناتے اور اللہ کا دین قبول کرنے کی دعوت دیتے رہے۔ آپ لوگوں
کو توحید کی خوبیاں بتاتے، بتوں، پتھروں اور درختوں کی پوجا کرنے سے روکتے اور
اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہونے سے منع کرتے۔
آپؐ کی دعوت کی خاص خاص باتیں
آپؐ لوگوں کوایک اللہ کی وحدانیت کی
طرف بلاتے۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ اپنے آپ کو، اپنے جسم کو، اپنے کپڑوں کو
میل کچیل، گندگی اور نجاست سے پاک رکھیں۔ اپنی جانوں کو گندی باتوں سے محفوظ
رکھیں۔ اپنے دل جھوٹے عقائد اور توہم پرستی سے پاک صاف رکھیں۔ اپنے قول اور وعدہ
کی پابندی کریں۔ زنا سے بچیں۔ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہ کریں۔ اپنے آپ کو ایک
اللہ کے حوالے کریں، اسی سے مانگیں کیونکہ دُعاؤں کا قبول کرنے والا وہی ہے اور
بیماروں کو تندرست بھی صرف وہی کرسکتا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، حجر و شجر سب اس کی
مخلوق ہیں۔ اللہ کی مرضی اورحکم کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ فرشتے، نبی اور
رسول سب اسی کے حکم کے پابند ہیں۔
مجالس،میلوں اور منڈیوں میں دعوت و تبلیغ
عرب میں عُکاظ، مَجِنّہ اور ذو
المجاز کے میلے بہت مشہور تھے۔ لوگ دور دور سے وہاں آتے۔ نبی کریم ﷺان میلوں اور
بازاروں میں جاتے اور وہاں آئے ہوئے لوگوں کو اسلام اور توحید کی دعوت دیاکرتے
تھے۔ نجی مجالس میں، برسرِ عام، حرم میں غرض ہر جگہ آپ لوگوں تک اسلام کی دعوت
پہنچاتے۔ حج کے زمانے میں جب لوگ منیٰ میں قیام کیاکرتے تھے اس وقت بھی آپؐ ایک
ایک قبیلے کے پڑاؤ میں جاتے اور خاص و عام سب کو دعوتِ حق پہنچاتے تھے۔
ابن سعد نے لکھا ہے کہ مکہ میں دس
سال تک آپؐ کا یہ طریقہ رہا کہ آپؐ، منیٰ،
عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز میں ایک ایک قبیلے کے پڑاؤ پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:
یاایھاالناس
قولوا لاالٰہ الااﷲ تفلحواوتملکوا بھا العرب وتذل لکم العجم واذا آمنتم کنتم
ملوکاً فی الجنۃ
لوگو! کہو لاالٰہ الا اﷲ، فلاح پاؤ
گے اوراس کلمے کی بدولت عرب کے حاکم بن جاؤگے اور عجم تمہارا مطیع ہوجائے گا، اور
جب تم ایمان لے آؤگے تو جنت میں تم بادشاہ ہوگے۔)[9](
دشمنی اور ایذاء رسانی کا آغاز
مکہ، بت پرستی اور شرک کا مرکز
تھا۔نبی کریم ﷺنے جب یہاں لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا تو پورے مکہ میں اس آواز نے
جس میں مشرکین کو گمراہ اور بت پرستی کو گمراہی کہاگیا تھا، مخالفت کی لہر دوڑادی
اور اہل مکہ آپؐ اور آپ ﷺ کی دعوت کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ ان کے لیے یہ بات
ناقابل برداشت تھی کہ کوئی ان کے معبودوں کو برا بھلا کہے اوران کے آباؤ اجداد کے دین
پر تنقید کرے۔
لیکن اس سب کے باوجود وہ آپؐ کو
براہ راست نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے اور نہ آپؐ کو جھوٹا قرار دے سکتے تھے کیونکہ
ان کے سامنے موجود شخصیت وہ تھی جسے وہ خود امین اور صادق ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے
چکے تھے۔ یہ شخصیت انسانی اقدار اور مکارمِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھی اور اس کی
چالیس سالہ زندگی ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی صورت میں موجودتھی۔
قریش کے سردار آپؐ کو اسلام کی دعوت
سے روکنے کی مختلف تدابیر سوچتے رہے۔ بالآخر کافی غورو خوض کے بعد انہیں یہی
سجھائی دیا کہ وہ آپؐ کو ر وکنے کے لیے
ابوطالب سے مل کر ان پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ آپؐ کی حمایت کرنا چھوڑ دیں۔
قریش ابوطالب کی خدمت میں
قریش کے چند سرداروں کا ایک وفد
ابوطالب کے پاس گیا اور کہا :
اے ابوطالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے
معبودوں کو برا بھلا کہا ہے اور ان کی برائی کی، ہمارے دین میں عیب نکالا، ہماری
عقلوں کو حماقت قرار دیا، ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا۔ اب آپ اسے ہماری دل
آزاری سے روکیں یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ خود بھی ہماری
طرح اس کے دین کے خلاف ہیں،پھر ہم اس سے نمٹ لیں گے۔ )[10](
ابوطالب نے ان کو بہت نرم جوا ب دے
کر اور اچھی اچھی باتیں کرکے روانہ کیا۔ ابوطالب کی جانب سے اس شفقت اور مدافعت کے
بعد نبی کریم ﷺاپنے اس اعلانِ حق اور دعوت و تبلیغ میں منہمک ہوگئے اور اپنا کام
جاری رکھا۔
اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج۔۔۔
ابوطالب کی جانب سے حمایت اور
مدافعت کے بعد آپؐ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے جس پر قریش کے سردار پیچ و تاب کھاتے رہے۔ بالآخر ان سے مزید صبر نہ
ہوسکا اور وہ ایک بار پھروفد لے کر ابوطالب کے پاس گئے اور کہا :
اے ابوطالب ! آپ ہمارے درمیان عمررسیدہ بزرگ
ہیں، شرف اور قدرومنزلت رکھتے ہیں۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھاکہ آپ اپنے بھتیجے
کو منع کردیں لیکن آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ اللہ کی قسم اب ہم اس سے
زیادہ صبر نہیں کریں گے۔ ہم سے اپنے باپ دادا کی برائی، اپنی عقلوں کی توہین اور
اپنے معبودوں کی عیب چینی برداشت نہیں ہوتی۔ اب یا تو آپ اسے روکیں یا پھر ہمارا
اور آپ کا مقابلہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق ہلاک ہوجائے۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد ابوطالب نے
نبی کریمﷺ کو بُلا بھیجا اور کہا:
بھتیجے! تمہاری قوم نے آکرمجھ سے یہ
یہ باتیں کہی ہیں۔ تم میرے لیے بھی اور اپنے لیے بھی جینے کی کچھ گنجائش باقی رہنے
دو اور مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں۔
نبی کریم ﷺ کو یہ سن کر خیال ہوا کہ شاید چچا کے لیے اب ان
کی حمایت کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اب وہ آپ کی مزید پشت پناہی نہ کرسکیں۔ تب آپؐ
نے فرمایا:
چچا جان! اللہ کی قسم، اگر وہ میرے
داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو
چھوڑ دوں تو میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے کامیاب فرمادے
یا میں اس راہ میں کام آ جاؤں۔
پھر آپ رنجیدہ ہوکر رو دیے اور اٹھ
کر جانے لگے۔ ابوطالب نے یہ دیکھ کر کہ محمدؐ پر اس بات کا کیسا سخت اثر ہوا ہے،
آپؐ کو پکارا۔ آپؐ پلٹ کر آئے تو انہوں نے
کہا:
بھتیجے! اپنا کام جاری رکھو اور جو
کچھ کرنا چاہو کرو، اللہ کی قسم میں کسی چیز کی وجہ سے بھی تمہیں دشمنوں کے حوالے
نہیں کروں گا۔
0 Comments