سيرت طيبه قریش کے وفد کی ناکامی ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




قریش کے وفد کی ناکامی

دوسرے روز عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا:

 ’’اے بادشاہ! یہ لوگ عیسیٰ  ؑ بن مریم  ؑ کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں‘‘۔

 اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلا بھیجا۔ اس بلاوے پر مسلمانوں نے پھر فیصلہ کیا کہ نجاشی جو کچھ پوچھے گا ہم سچ بولیں گے، نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ جب مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے تو نجاشی نے پوچھا : عیسیٰ بن مریم كے بارے میں تمہارا كیا مؤقف ہے؟جواب میں حضرت جعفر ؓ نے فرمایا:

ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبیؐ لے کر آئے ہیں یعنی  عیسیٰ  ؑ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاک دامن  مریم علیہاالسلام کی طرف القا کیا تھا۔

اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور بولا:

 اللہ کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔

اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں سے کہا:

 جاؤ تم لوگ میری زمین میں امن و مان سے رہو۔ جو تمہیں برا کہے گا وہ سزا پائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے میں کسی آدمی کوستاؤں اور اس کے بدلے میں مجھے سونے کا پہاڑ ملے جائے۔

پھر اس نے اپنے لوگوں کو حکم دیا:

 ان دونوں کو ان کے ہدیے واپس کردو، مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کی راہ میں رشوت لوں۔ نیز اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہ کی تھی کہ میں اللہ کے خلاف لوگوں کی بات مانوں۔

حضرت ام سلمہؓ  جنہوں نے اس واقعہ کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے، فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ دونوں اپنے ہدیے اور تحفے لیے بے آبرو ہوکر واپس چلے گئے اور ہم لوگ نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوس کے زیر سایہ مقیم رہے۔

ہجرت حبشہ کے بعد مکّہ میں نبی کریمﷺ کے پاس بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے جن میں چند خواتین بھی تھیں۔ کفارِ مکہ پہلے ہی حبش کے وفد کی ناکامی کی بناء پر غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار تھے۔ اس پر مزید انہیں اس بات کا بھی غصہ تھا کہ مسلمان مہاجرین حبش میں آرام و سکون کی زندگی گزاررہے تھے اور نجاشی کے ملک میں انہیں ایک اچھی پناہ گاہ میسر آگئی تھی۔ اب ان کے سامنے دو ہی راستے تھے، ایک اس دعوت حق کو بزور قوت روکنا اور دسرے آپؐ کی جان كو نقصان پہنچانا اس حالت میں انہوں نے نبی کریم ؐ پر دست درازیاں شروع کردیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاصؓ سے ابن اسحاق نے ان کا ایک  بیان نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

 ایک بار مشرکین حطیم میں جمع تھے میں بھی موجود تھا۔انہوں نے نبی کریمﷺ کے بارے میں کہا کہ اس شخص کے معاملے میں ہم نے جتنا صبر کیا ہے اس کی مثال نہیں۔ حقیقت میں ہم نے اس کے معاملے میں بہت ہی بڑی بات پر صبر کیا ہے۔ ان کی یہ گفتگو چل رہی تھی کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ آپؐ نے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا پھر کعبہ کا طواف کرتے ہوئے مشرکین کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے آپ پر ایک چبھتا ہوا فقرہ کسا  اور میں نے نبی کریمﷺ کے چہرے پر اس کا ناگوار اثر محسوس کیا۔ پھر دوسری مرتبہ آپؐ گزرے۔ انہوں نے پھر آوازہ چست کیا اور میں نے محسوس کیا کہ آپ کو وہ ناگوار گزرا ہے۔ تیسری مرتبہ جب آپؐ گزرے اور انہوں نے یہی حرکت کی تو آپؐ رک کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا:

’’قریش کے لوگو! سنتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں تمہارے پاس قتل و ذبح (کا حکم) لے کر آیا ہوں‘‘۔)[1](

عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں:

نبی کریمﷺ  کی اس بات پر سارے لوگ سُن ہوکر رہ گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ جو اُن میں سب سے بڑھ بڑھ کر بول رہاتھا، اس نے اپنی طرف سے جو بہتر سے بہتر الفاظ پائے، ان کے ذریعے سے آپ سے رحمت کا طلب گار ہو ا اور کہا:

 ’’اے ابوالقاسم! اچھی طرح سے گزر جائیے۔ اللہ کی قسم آپؐ تو کبھی نادان نہ تھے‘‘۔

 چنانچہ آپؐ وہاں سے پلٹ گئے۔

 دوسرے روز یہ لوگ پھر حرم میں جمع ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے آپس میں کہا:

’’کچھ یاد ہے کہ یہ شخص تمہارے معاملے میں کہاں تک بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ اس نے وہ بات تک کھل کر کہہ دی جو کل کہی تھی اورپھر تم نے اسے چھوڑ دیا‘‘۔

اتنے میں نبی کریم ﷺ سامنے سے نمودار ہوئے۔ آپؐ کے آتے ہی یک بارگی سب آپ پر جھپٹ پڑے اور آپؐ  کو گھیر کر کہنے لگے:

 ’’ تم ہی ہو جو یہ اور یہ کہتے ہو‘‘؟

آپؐ نے فرمایا :

’’ہاں میں ہی ہوں جو یہ کہتاہوں‘‘۔ 

اتنے میں میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک شخص نے آپؐ کی چادر کو گریبان کے پاس سے پکڑ کر مٹھی میں لے لیا۔اس پر ابوبکر ؓ آپؐ کی حمایت کے لیے اٹھے۔وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:

اتقتلون رجلاً ان یقول ربی ا

(کیا تم لوگ ایک آدمی کو اس لیے قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے(۔

اس کے بعد وہ لوگ آپ کو چھوڑ کر پلٹ گئے۔

 عبداللہ بن عمر بن عاصؓ کہتے ہیں کہ یہ سب سے سخت ترین ایذاء رسانی تھی جو میں نے قریش کو کرتے ہوئے دیکھی تھی۔)[2](

حضرت حمزہ ؓ  کا قبول اسلام

اسی زمانے میں ایک روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے حضرت حمزہ ؓ  کو دائرہ اسلام میں داخل کردیا۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ ۶نبوت کے اخیر کا ہے۔ ایک روز نبی کریم ﷺ کو ہ صفا  پر بیٹھے تھے،کہ ابوجہل آپؐ کے قریب سے گزرا اورآپؐ کو بے تحاشا گالیاں دیں، آپ ؐ  کو ایذا پہنچائی اور سخت برا کہا۔ نبی کریم ﷺ  خاموش رہے اور کچھ نہ کہا۔ اس کے بعد اس نے آپؐ کے سر پر پتھر مارا جس سے خون بہہ نکلا۔ پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جاکر بیٹھ گیا۔ عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ ؓ شکار سے واپس آئے تو اس نے ان سے ابوجہل کی حرکت کہہ سنائی۔ حضرت حمزہ ؓ قریش کے نہایت بہادر، طاقت ور اور خوددار آدمی تھے۔ آپؐ کے چچا بھی تھے او ر دو دھ شریک بھائی بھی۔ عمر میں بھی دونوں میں كم ہی فرق تھا۔ آپؐ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ جب انہوں نے یہ قصہ سنا تو شدید غصے كی حالت میں اس جگہ پہنچے جہاں ابوجہل بیٹھا تھا اور جاتے ہی کمان اس کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ پھر کہا:

 تو میرے بھتیجے کو گالیاں دیتا ہے۔ میں بھی انہی کے دین پر ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ تجھ میں ہمت ہے تو وہی گالیاں، ذرا مجھے دے کر دیکھ۔

 اس پر بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابوجہل کی حمایت میں کھڑے ہوئے مگر اس نے کہا:

’’ابو عمارہ کو چھوڑ دو، میں نے و اقعی اس کے بھتیجے کو بری طرح گالیاں  دی تھیں‘‘۔

ابتدا میں حضرت حمزہ ؓ اس حمیت کے طور پر اسلام لائے تھے کہ ان کے عزیز ترین بھتیجے کی توہین کی گئی تھی۔ لیکن پھر اللہ نے اسلام کے لیے ان کاسینہ کھول دیا اور ان کے قدم اسلام پر مضبوطی سے جم گئے۔ حضرت حمزہ ؓ کے اسلا م لانے کی وجہ سے مسلمانوں نے عزت اور قوت محسوس کی۔)[3](

حضرت عمرؓ  کاقبول اسلام

حضرت حمزہ ؓ کے اسلام لانے سے قریش کو بڑی اذیت پہنچی تھی۔ اس کے تین دن بعد ایک بڑی شخصیت، عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے ان کو دوسری زبردست چوٹ پڑی۔ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی ۶ نبوی کا ہے۔ حضرت عمرؓ، بہادر تھے، طاقت ور تھے اور انسابِ عرب کے علم میں ان کی شہرت تھی۔ وہ نہایت زبان آور تھے اور ان کی قوتِ بیان کا لوہا مانا جاتا تھا۔ قریش کی جانب سے بیرونی ممالک کی سفارت کاری ان کے ذمہ تھی۔ وہ اسلام کی مخالفت میں اور ایمان لانے والوں پر ظلم و ستم میں پیش پیش تھے۔

ایک دن حضرت عمرؓ نبیؐ کے قتل کے ارادے سے تلوار لے کر نکلے مگر راستے میں ان کو حضرت نعیم ؓ مل گئے جن کا تعلق انہی کے قبیلے بنی عدی سے تھا اور وہ اسلام لاچکے تھے۔ انہوں نے پوچھا :

’’عمر کہاں کا ارادہ ہے‘‘؟

کہنے لگے :

(نعوذ باللہ) محمد   کا فیصلہ کرنے جارہاہوں  جس نے بے دینی اختیار کی،قریش کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا، ہم سب کو احمق قرار دیا، ہمارے دین میں عیب نکالا اور ہمارے معبودوں کی برائی کی۔

نعیمؓ نے کہا:

 واللہ عمر تمہارے نفس نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد ؐ کے قتل کے بعد بنی عبد مناف تمہیں زندہ چھوڑ دیں گے؟۔ تم ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔

 حضرت عمر ؓ نے کہا:

’’میرے گھر میں کون‘‘ ؟

 نعیم ؓنے کہا:

 تمہارے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سعید بن زیدؓ اور تمہاری بہن فاطمہ ؓ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں اور انہو ں نے محمدﷺ  کی پیروی اختیار کر لی ہے۔

 عمر  پلٹ کرسیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں حضرت خباب ؓ بن الارت موجود تھے۔ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس پر سورہ   طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اور وہ اُن کو یہ سورت پڑھا رہے تھے۔ جب ان کو عمر کی آمد کا احساس ہوا تو خباب ؓ گھر کے اندرونی کمرے میں چھپ گئے اور حضرت فاطمہؓ نے جلدی سے وہ صحیفہ چھپالیا لیکن عمر اس سے قبل حضرت خبابؓ کی تلاوت و قراء ت سن چکے تھے، پہنچ کرپوچھا :

’’یہ کیسی کھسر پھسر ہورہی تھی‘‘؟

 ان دونوں نے جواب دیا:

 ’’کیاتم نے کچھ سنا ہے‘‘؟

 انہوں نے کہا :

’’ہاں سنا ہے۔ واللہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے محمدکادین قبول کرلیا ہے‘‘۔

 پھر انہوں نے اپنے بہنوئی سعید کو مارا، شوہر کو بچانے کے لیے حضرت فاطمہؓ آئیں تو انہوں نے ان کو بھی خوب مارا جس سے ان کا سر پھٹ گیا۔ جب آپ ان کو مار کر تھک چکے تو ان دونوں نے کہا :

ہاں ہم مسلمان ہوچکے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں، تم نے جو کرنا ہے کرلو۔

عمر ؓ نے بہن کا خون بہتے دیکھاتواپنی اس حرکت پر نادم ہوئے اور کہنے لگے :

’’مجھے وہ صحیفہ تو دکھاؤ جسے تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے‘‘۔

 ان کی بہن نے کہا:

’’ہمیں ڈر ہے کہ کہیں تم اِسے ضائع نہ کردو‘‘۔

انہوں نے کہا :

’’تم ڈرو نہیں،اطمینان رکھو ‘‘۔

 پھر اپنے معبودوں کی قسم کھائی کہ پڑھ کر اسے واپس کردیں گے۔

ان کی ان باتوں سے بہن کو اطمینان حاصل ہوا اور کچھ امید بندھی کہ شاید یہ مسلمان ہوجائیں، پھر انہوں نے بھائی سے کہا:

آپ شرک کی وجہ سے نجس و ناپاک ہیں اور اس صحیفے کو صرف پاک آدمی ہی ہاتھ لگاسکتے ہیں۔

 اس پر عمرؓ نے اٹھ کر غسل کیا  اور حضرت فاطمہؓ نے وہ صحیفہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ انہوں نے سورہ طٰہٰ کا ابتدائی حصہ پڑھا ہی تھا کہ حضرت خبابؓ باہر نکل کر کہنے لگے:

ابن خطاب!اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ نے تم کو اپنے نبی کی دعا کا مصداق بننے کے لیے چن لیا ہے۔ میں نے کل ہی نبی کریم    کو یہ فرماتے سنا :

اللهم أعز الإسلام بأحب الرجلين إليك: بعمر بن الخطاب أو بأبي جهل بن هشام

اے اللہ!عمر بن خطاب اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔)[4](

پس اے عمر، اللہ کی طرف آؤ، اللہ کی طرف آؤ۔

عمرؓ نے کہا :

’’مجھے محمدؐ کے پاس لے چلو۔ میں ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا چاہتاہوں‘‘۔

 حضرت خبابؓ نے کہا وہ صفا کے قریب ایک مکان (دارِارقم) میں اپنے چند اصحاب کے ساتھ موجود ہیں۔ چنانچہ  عمرؓ تلوار کمر سے باندھے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ صحابہ میں سے ایک صاحب نے اٹھ کر دروازے کی جھری سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ عمرؓ تلوار کمر سے باندھے کھڑے ہیں۔ وہ گھبرائے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کو خبر دی۔ حضرت حمزہؓ بولے:

 آنے دو، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ہم بھی نیک معاملہ کریں گے ورنہ اسی کی تلوار سے اسے ختم کردیں گے۔

 نبی کریم  ﷺ نے فرمایا:

’’اسے آنے دو‘‘۔

 حکم کے مطابق  عمر ؓ   کو ا جازت دے دی گئی۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی نبی کریمؐ ان کی طرف بڑھے،ان کی چادر کو مٹھی میں دبا کر شدت سے کھینچا اور فرمایا:

ابن خطاب تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ تم باز نہ آؤگے جب تک اللہ تم پر کوئی سخت آفت نازل نہ کردے۔

 حضرت عمر ؓ نے عرض کیا:

 یا رسول اللہﷺ ! میں اللہ اور اس کے رسول پر اور رسول کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لانے کے لیے حاضرہوا ہوں۔

 اس پر آپ ﷺ نے زور سے اللہ اکبر فرمایا جس سے مکان میں موجود سب لوگ جان گئے کہ عمر ؓ مسلمان ہوگئے ہیں۔

 حضرت عمرؓ کے ا سلام لانے سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا اور ان کی بڑی ہمت بندھی کہ حضرت حمزہ ؓ کے تین دن بعد حضرت عمرؓ بھی مسلمان ہوگئے اور اب یہ دونوں بہادر اسلام کے لیے قوت و طاقت اور تقویت کا موجب بنیں گے۔)[5](

قریش کی مصالحتی کوشش

عرب کے کافروں نے جب دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کے نتیجے میں ایک جانب مسلمان حبشہ میں چین سے زندگی گزاررہے ہیں اور دوسری جانب حمزہؓ اور عمرؓ جیسے مکہ کے بہادر اور نامور سردار مسلمان ہوگئے ہیں تو انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم سے مصالحت کی کوشش شروع کی جس میں لالچ اور دھمکی دونوں کا اثر شامل تھا۔ ایک دفعہ قریش کے چند سردار مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور مسجد کے ایک گوشے میں حضرت محمد ﷺ تن تنہا تشریف فرماتھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ؓ ایمان لاچکے تھے اور قریشِ مکہ مسلمانوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ پر پریشان تھے۔ اس موقع پر عتبہ بن ربیعہ نے، جو اپنی قوم کا سردار تھا،  قریش کے دوسرے سرداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

 قریش کے لوگو! اگر آپ لوگ پسندکریں تومیں جاکر محمدؐ سے بات کروں اور ا ن کے سامنے چند تجاویز رکھوں۔ شاید کہ وہ ان میں سے کوئی بات مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کرلیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں۔

 وہاں موجود تمام افراد نے عتبہ کی اس بات کی تائید کی اور کہا:

’’ابوالولید ! ہمیں آپ پر پورا اطمینان ہے، آ پ جائیے اور ان سے بات کیجیے‘‘۔

عتبہ اٹھ کر نبی ﷺ کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا:

بھتیجے! ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی وہ تم خود جانتے ہو اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو احمق اور بے وقوف قرار دیا،ان کے معبودوں اور ان کے دین کی برائی کی۔ ہمارے جو آباء واجداد گزر چکے ہیں ان سب کو تم نے کافر قرار دیا۔ اب تم ذرا میری بات سنو، میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز رکھتا ہوں، ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کرو۔

 نبی کریم  ﷺ نے فرمایا:

’’ابوالولید آپ کہیں میں سنوں گا‘‘۔

 اس نے کہا:

 بھتیجے یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے اگر اس کا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اتنا  مال دیں گے کہ تم مالدار ترین ہوجاؤگے۔ اگر تم اس کے ذریعے سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنالیں گے اور معاملات میں تمہارے فیصلے کے پابند ہوں گے۔اگر تم بادشاہی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنالیتے ہیں، اور اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع نہیں کرسکتے اور تمہیں سوتے جاگتے میں واقعی کچھ نظر آتا ہے تو عرب کے بہترین طبیب سے تمہاراعلاج کرادیتے ہیں اور سب مل کر اس کا خرچ برداشت کریں گے۔

عتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور نبی کریم ﷺ  خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا :

’’ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے یا ابھی کچھ اور کہنا ہے؟‘‘

اس نے کہا :

’’بس مجھے جو کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا‘‘۔

 آپؐ نے فرمایا:

’’اچھا اب میری بات سنیں‘‘۔

 اس کے بعد آپؐ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ حم السجدة کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتارہا۔ جب آپؐ آیت سجدہ(آیت۳۸) پر پہنچے تو آپؐ نے سجدہ کیا پھر سر اٹھاکر فرمایا:

’’ابوالولید !آپ نے میرا جواب سن لیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔

عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی طرف چلا۔ اسے آتا دیکھ کر مشرکین نے آپس میں کہا:

’’اللہ کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں جسے لے کر یہ گیا تھا‘‘۔

پھر جب وہ آکر بیٹھ گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا :

’’ابوالولید !کیا سن کرآئے ہو‘‘؟

 اس نے کہا:

 باللہ میں نے ایسا کلام سنا کہ پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ اللہ کی قسم میری مانو تواِس شخص کو اُس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام رنگ لاکر رہے گا۔ پھر اگر عرب اس پر غالب آگئے تو تم اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے بچ جاؤگے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر بالفرض وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔

 لوگوں نے کہا:

 ’’ابوالولید آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔‘‘

عتبہ نے کہا:

 ’’میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتادی، اب تمہارا جوجی چاہے کرتے رہو‘‘۔)[6](

ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب آپؐ سورۂ حم السجدہ کی آیت ۱۳ : فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ  (اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تم کو اسی طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے جیسا عادو ثمود پر نازل ہوا تھا)پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپؐ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا : ’’ایسی بات نہ کہو‘‘ اور اپنی اس حرکت کا سبب لوگوں کو یہ بتایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ محمدؐجب کوئی بات کہتے ہیں تو وہ جھوٹی نہیں ہوتی، اس لیے مجھے عذاب کا خوف ہوا۔)[7](

[1]           مسند احمد، حدیث نمبر: 7036۔

[2]           صحیح البخاری، حدیث نمبر:3478،3856

[3]           رحمۃ للعالمین : 1/68۔

[4]           سیرة ابن ہشام: 1/343۔

[5]           دیكھیے، صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3863۔

[6]           ابن كثیر، السیرة النبویة: 1/502۔

[7]           تفسیر ابن کثیر: ۶/ ۱۵۹۔

Post a Comment

0 Comments