اذیت کی مختلف
صورتیں اور نبی کریم ﷺ کا کردار
اُس زمانے میں اسلا م اور نبی كریم صلی
اللہ علیہ و سلم کے خلاف قریش کا غصہ روز بروز بڑھتا چلا جارہا تھا۔ عرب کے قبائل
میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ قریش کی ساری کوششوں کے باوجود نہ صرف
مکہ بلکہ بیرونی قبائل کے لوگ بھی مسلمان ہورہے تھے۔ حبشہ میں نجاشی کی حمایت اور
سرپرستی کی وجہ سے مسلمان ایک مطمئن اور پرسکون زندگی گزاررہے تھے۔ اس پر مزید یہ
کہ عرب کے دو جری اور بہادر سردار حضرت عمرؓ اورحضرت حمزہؓ اسلام لا کر مسلمانوں
کی قوت میں اضافے کا سبب بن چکے تھے۔ ان سب اسباب کی بناپر قریش نے ظلم کی ایک
صورت پر باہم اتفاق کرلیا۔
بنی ہاشم کا مقاطعہ اور محاصرہ
بالآخر قریش کے سرداروں نے ایک جگہ
جمع ہوکر بالاتفاق ایک دستاویز لکھی جس میں اللہ کی قسم کھا کر یہ عہد کیاگیاکہ جب
تک بنی ہاشم اور بنی مطلب محمد ﷺ کو ان کے
حوالہ نہ کردیں اس وقت تک ان سے میل جول، شادی بیاہ،بول چال اورخرید فروخت کا کوئی
تعلق نہ رکھا جائے گا۔ یہ واقعہ محرم ۷نبوی کا ہے۔
جب یہ عہد و پیمان طے پاگیا تو اس
صحیفہ کو خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ اس کے بعد ابوطالب نے بنی ہاشم اور بنی
مطلب کو جمع کیا اور نبی کریمؐ کی حفاظت کے لیے ان سب کو راضی کیا۔اس کے نتیجے میں
ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان ہوں یا کافر،ابوطالب
کی ہدایت پر نبی کریم ﷺ کی حمایت کے لیے تیار ہو گئے۔ دوسری طرف مشرکین نے آپس میں
بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف عہد کیا کہ نہ ان سے تعلقات رکھیں گے نہ شادی بیاہ
کریں گے نہ دکھ سکھ میں شریک ہوں گے نہ تجارت کریں گے نہ ان سے میل جول رکھیں گے
نہ ہی بات چیت کریں گے یہاں تک کہ یہ لوگ محمد(ﷺ) کو قتل کرنے کے لیے ہمارے حوالے
نہ کر دیں۔ انہوں نے یہ معاہدہ لکھا اور اس میں شرط رکھی کہ ہم میں سے کوئی بھی بنی ہاشم اور بنی مطلب
سے صلح نہیں کرے گا اور ان سے بالکل رعایت نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کو بغیض بن
عامر بن ہاشم نے لکھا تھا اور نبی کریم ﷺنے اسے بددعا دی تھی جس سے اس کا وہ ہاتھ
شل ہو گیا تھا )[1] (۔
یہ معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں
لٹکا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے مسلم و کافر سوائے ابو لہب کے، شعب ابی طالب میں محصور ہو
گئے یہ واقعہ نبوت کے ساتویں سال کے بالکل آغاز میں ہوا تھا۔
شعبِ ابی طالب میں
محصوری کا یہ عرصہ تین سال پر محیط
رہا۔ اس پورے زمانے میں قریش نے محصورین کی ایسی ناکہ بندی کی کہ ان کے لیے کھانے
پینے کی چیزیں پہنچنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔ مکہ میں باہر سے جو کچھ آتا مشرکین
جلد جاکر خرید لیتے تاکہ محصورین ان سے کوئی چیز نہ خرید سکیں۔ ابولہب یہاں بھی
اپنی ذلیل حرکات سے باز نہ رہا۔ محصورین میں سے جب بھی کوئی شخص کسی تاجر سے کوئی
چیز خریدنے لگتا تو ابولہب تاجر کو مخاطب کرکے کہتا کہ ان سے اتنی زیادہ قیمت مانگو کہ یہ خرید نہ سکیں پھر میں وہی چیز تم
سے خریدلوں گا اور تمہارا نقصان نہ ہونے دوں گا۔ اس طرح محصورین کی حالت دن بدن
بدترہوتی گئی۔ انہیں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔ فاقہ کشی کا یہ حال تھا کہ بھوک سے
بلکتے بچوں اور عورتوں کی آوازیں شعب ابی طالب سے باہر سنی جاتی تھیں۔ یہ لوگ صرف
حج کے زمانے میں نکلتے تھے اور دوسرا حج آنے تک اپنے محلے میں بند رہتے تھے۔ ان کے
پاس بمشکل قریش کی بے خبری ہی میں کوئی چیز پہنچ پاتی تھی۔ اس محصوری کے باوجود
نبی کریم ﷺ اور آپؐ کے اصحاب ایام حج میں باہر نکلتے اورمکہ
آنے و الے حاجیوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔
شق القمر کا واقعہ
مقاطعہ اپنی پوری شدت سے جاری تھا
کہ شق القمر کا عظیم الشان واقعہ پیش آگیا۔ ہجرت سے پانچ سال قبل۸ نبوی چاند دو
ٹكڑے ہو گیا۔ خود قرآن مجید میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے:
اِقْتَرَبَتِ
السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا
وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ)[2] (
قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا(
مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ) یہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، منہ موڑے جاتے ہیں
اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔
مختلف روایات سے چاند كے دو ٹكڑے
ہونے كی جو تفصیل معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے :
قمری مہینے کی چودھویں شب تھی۔ چاند ابھی ابھی
طلوع ہوا تھا۔ یکا یک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور
دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے
باہم جڑ گئے۔ نبی کریمﷺ اس وقت منیٰ میں تشریف فرماتھے۔ آپؐ نے لوگوں سے فرمایا:
’’دیکھو اور
گواہ رہو‘‘۔
کفار نے کہا :
’’محمدؐنے ہم پر
جادو کردیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا‘‘۔
دوسرے لوگ بولے:
محمدؐ ہم پر جادو کرسکتے تھے تمام لوگوں پر
نہیں۔ باہر کے لوگوں کوآنے دو، ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے
یا نہیں۔
باہر سے جب کچھ لوگ آئے توانہوں نے شہادت دی کہ
وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔
یہ روایات بخاری، مسلم، ترمذی اور
احمد نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ، حضرت حذیفہ ؓ بن الیمان، حضرت
انسؓ بن مالک اور حضرت جبیر ؓ بن مطعم سے نقل کی ہیں۔ شق القمر کا یہ واقعہ آپﷺ کی
صداقت کا ایک نمایاں ثبوت تھا۔
عہد نامہ کی تنسیخ اور مقاطعہ کا خاتمہ
جب یہ عہد و پیمان قریش کے سرداروں
نے باہم باندھاتو ان میں کئی افراد ایسے بھی تھے جو اس معاہدہ اور اس کے نتیجے میں
مقاطعے اور محاصرے سے خوش نہ تھے۔ اور جن دو بڑے خاندانوں کا مقاطعہ ہوا تھا، مکہ
میں کوئی خاندان ایسانہ تھا جن کی ان سے رشتہ داریاں نہ ہوں۔ اس بنا پر جب اس
مقاطعہ کو پورے تین سال گزر گئے تو قریش کے چند باضمیر اور عالی حوصلہ افراد میں
سے ایک ہشام بن عمرو اٹھا اور اس نے مقاطعے کے خاتمہ کے لیے مختلف افراد کو جمع
کیا، پھر ان سب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس ظالمانہ معاہدہ کے خاتمہ میں اس
کی مدد کریں۔ یہ کل پانچ افراد تھے اور ا ن سب نے رات کے وقت مل کر بالا تفاق طے
کیا کہ اگلے روز قریش کی مجلس میں جاکر اس حوالے سے بات کریں گے۔ دوسرے روز صبح کو
یہ لوگ حرم میں داخل ہوئے، کعبہ کا طواف کیا، پھر قریش کی مجلسوں کی طرف گئے اور
ان میں سے ایک شخص زہیرنے مکہ کے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:
اے مکہ والو! ہم مزے سے کھائیں پئیں اور کپڑے
پہنیں، اس حال میں کہ بنی ہاشم دانہ دانہ کو ترسیں اور ہلاک ہوں۔نہ ان سے کچھ
خریدا جاتا ہے اور نہ ان کے ہاتھ کچھ فروخت کیا جاتا ہے۔ خد اکی قسم میں اس وقت تک
چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک اس ظالمانہ معاہدہ کو پھاڑ کر پرزہ پرزہ نہیں کر
دیاجاتا۔
اس موقع پر ابوجہل نے کہا:
’’ تم جھوٹ
بولتے ہوں۔ وہ ہر گز نہیں پھاڑا جائے گا‘‘۔
مطعم بن عدی، زمعہ،عمرو بن ہشام وغیرہ نے زہیر
کی تائید کی۔ یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا:
’’یہ ایک سازش
ہے جو رات کسی اور جگہ بیٹھ کر تیار کی گئی ہے‘‘۔
اس دوران میں ابوطالب اپنے ساتھیوں
کے ساتھ حرم پاک پہنچے۔ ان کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو
اس صحیفے کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ مقاطعہ کی دستاویز میں موجود مضمون کو دیمک
چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیاہے۔ نبی کریمؐ نے اپنے چچا کو یہ بات
بتائی چنانچہ اب وہ قریش سے یہ کہنے آئے تھے کہ ان کے بھتیجے نے ان کو یہ خبر دی
ہے، اگر وہ جھوٹا ثابت ہوجائے تو ہم تمہارے ا ور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے۔
لیکن اگر وہ سچا ہے تو پھر تم کو ہمارے ساتھ کی گئی قطع رحمی کو ختم کرنا ہوگا اور
ظلم سے باز آنا ہوگا۔
جب قریش کو یہ بتایاگیا تو انہوں نے
کہا کہ آپ نے انصاف کی بات کہی ہے۔ پھر وہ صحیفہ لے کر آئے توواقعی کیڑوں نے اس کا
صفایا کردیا تھا، صرف اللہ کا نام باقی تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بات
سچی تھی۔ اس کے بعد صحیفہ چاک ہوگیا اور نبی کریمؐ اور بقیہ تمام افراد شعبِ ابی
طالب سے باہر آگئے۔ یہ واقعہ ۱۰ نبوی کا ہے۔
پیارے چچا ابوطالب اور حضرت خدیجہ ؓ كی جدائی كا عظیم صدمہ
نبوت کے دسویں سال نبی کریم ﷺ کو پے
درپے دو صدمات پہنچے۔۱۰ نبوی میں آپ کے چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے ہی
لڑکپن سے نبی کریم ﷺ کی پرورش کی تھی اور نبوت کے بعد ہر موقع پر آپؐ کی مدد اور کفار کے مقابلے میں آپؐ کی حفاظت کی تھی۔
ابوطالب نے ایك ماں اور باپ سے بڑھ كر آپ كو پیار دیا آپ كا سہارا بنے رہے آپ کے
مددگار رہے ان كی بھاری بھركم شخصیت كی موجودگی میں قریش مكہ كو یہ ہمت نہ ہوئی كہ
آپ كو كوئی بڑا نقصان پہنچا سكیں۔ اسی بناپر نبی کریم ﷺکوان کی وفات کا بہت صدمہ
ہوا۔
ابوطالب کی وفات کے تین دن بعد ام
المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ بھی رحلت فرماگئیں۔ اس وقت ان کی عمر ۶۵ برس تھی۔
حضرت خدیجہ ؓ رسول اللہﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گراں قدر نعمت تھیں۔ ان کی
رفاقت آپؐ کے ساتھ تقریباً ۲۵ سال رہی اور اس دوران میں ہر ہر موقع پر انہوں نے
آپؐ کی ہمت بندھائی اور آپؐ کا ساتھ دیا۔ مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جان اور
مال سے آپ کو قوت پہنچائی اور آپؐ کی خیرخواہی اور غم گساری کی۔ یہ سب سے پہلے
اسلام لائی تھیں۔ جبریل ؑ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس زوجہ محترمہ کو
اللہ کا سلام پہنچایا تھا۔ ان کی وفات کا
نبی کریمؐ کو بہت صدمہ ہوا۔آپ نے اُن کے
بارے میں ارشاد فرمایا:
جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر
ایمان لائیں۔ جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انہوں نے میر ی تصدیق کی۔ جس وقت لوگوں
نے مجھے محروم کیا انہوں نے اپنے مال میں مجھے شریک کیا۔ اللہ نے مجھے ان سے اولاد
دی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔)[3](
کفار کی اذیت رسانیاں
نبی کریم ﷺ اس سال کو عام الحزن (غم
کا سال) فرمایاکرتے تھے کیونکہ ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کی وفات کے ان
حادثات کی بناپر نبی کریمﷺ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ دوسری طرف قریش کی زیادتیاں
بھی بڑھ گئی تھیں کیونکہ ابوطالب کے بعد اب آپ کا کوئی پشتیبان نہیں تھا اور سب سے
بڑا ظاہری سہارا بھی ختم ہو گیا تھا۔
ابن اسحاق نے قریش کی بڑھتی ہوئی
اذیت رسانی کی ایک مثال عروہ بن زبیرؓ کے حوالہ سے بیان کی ہے کہ ایک روز قریش کے
ایک احمق نے سر بازار نبی کریمﷺ کے
سرمبارک پر مٹی ڈال دی۔ آپؐ اسی حال میں گھر تشریف لے گئے۔ آپؐ کی صاحبزادیوں میں
سے ایک آپؐ کا سردھوتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔ آپؐ انہیں تسلی دینے کے لیے یہ فرما رہے تھے: لا تبكي يا بنية؛ فإن الله مانع أباك ’’بیٹی رونہیں اللہ تیرے باپ کا حامی
ہے‘‘۔)[4](
اس طرح کے پے درپے آلام ومصائب کی
بنا پر آپ ﷺ نے اس سال کو عام الحزن فرمایا اور یہ سال اسی نام سے مشہور ہوگیا۔
یوسف علیہ السلام كے بارے میں سوال اور قصہ یوسف كی بشارتیں
نبی كریم ﷺ كے دو اہم دنیوی سہارے (چچا اور زوجہ مطہرہ) كے داغ مفارقت دے جانے
كے بعد حالا شدید ترین ہو گئے، قریش مكہ كے لیے راستہ كھلا تھا اب وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم كی جان كے درپے تھے اوركوئی نہ كوئی موقع تلاش كر رہے تھے كہ آپ كو شہید
كردیں اس سلسلے میں انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں فیصلے بھی كر لیے تھے، اور اس كو
نافذ بھی كر رہے تھے۔ اس كے ساتھ ساتھ آپ ﷺ كے امتحانات بھی لے رہے تھے اور ایسے
سوالات كرتے تھے تاكہ آپ جواب نہ دے سكیں اوردعوت كا كام ختم ہو جائے اسی طرح
انہوں نے آپ سے حضرت یوسف كے بارے میں سوال كر دیا كہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا
کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے، اور اس سے پہلے آپ كی زبان سے
بھی یوسف كا نام نہیں سنا گیا تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ آپ یا تو اس کا مفصل
جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت جان چھڑا كر بعد میں کسی یہودیی سے پوچھنے کی کوشش
کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سورہ یوسف كے آغاز میں لكھتے ہیں كہ : اس
امتحان میں انہیں اُلٹی منہ کی کھانی پڑی۔اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ
فوراً اُسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ
اس قصے کو قریش کے اُس معاملہ پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ کررہے تھے۔
اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا: ایک یہ کہ محمد ؐ
کی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے،
اور اُن کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کردیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں
بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔
دوسرےیہ کہ سردارانِ قریش اور محمد ؐ کے درمیان اُس وقت جو معاملہ چل رہا تھا
اس پر برادرانِ یوسف اور یوسف ؑ کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا
جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے
ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ اللہ کی مشیت
سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اُسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں
نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آمائی
بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اِسی
بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹادینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ
مقصد بھی سورہ کے آغاز میں صاف صاف بیان کردیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا لَقَدْکَانَ
فِیْ یُوْسُفَ وَاِخوَتِہۤ١اٰیٰتٌ لِّلسَّاۤئِلِینَ۔”یوسف اور اس کے بھائیوں کے
قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام
کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کرکے قرآن مجید
نے گویا ایک صریح پیش گوئی کردی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح
ثابت کرکے دکھادیا۔اس سورہ کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں
نے برادرانِ یوسف کی طرح محمد ؐ کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبوراً ان سے جان
بچاکر مکّہ سے نکلنا پڑا۔ پھر اُن کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو بھی جلاوطنی میں
ویسا ہی عرہج و اقترار نصیب ہُوا جیسا یوسف ؑ کو ہُوا تھا۔ پھر فتح مکّہ کے موقع
پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایہٴ تخت میں یوسف ؑ کے سامنے ان کے
بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا۔ وہاں جب برادرانِ یوسف انتہائی عجز
و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ
تَصَدَّقْ عَلَینَا ط اِنَّ اللہَ یَجزِی المُتَصَدِّقِینَ، ”ہم پر صدقہ کیجیئے، اللہ
صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے“، تو یوسف ؑ نے انتقام کی قدرت رکھنےکے باوجود
انہیں معاف کردیا اور فرمایا لَا تَثرِیبَ عَلَیکُمُالیَومَ، یَغفِرُ اللہُ لَکُم
وَھُوَ اَرحَمُ الرّٰحِمِینَ ”آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ
سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے“۔اسی طرح جب یہاں محمد ؐ کے سامنے
شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت ؐ ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ
لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا ”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ
کیا معاملہ کروں گا؟“ انہوں نے عرض کیا اخ کریمٌ و ابن اخ کریمِ ”آپ ایک عالی ظرف
بھائی ہیں، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں“۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا فانی اقول
لکم کما قال یوسف لاخوتہ، لا تثربَ علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء ”میں تمہیں
وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت
نہیں، جاوٴ تمہیں معاف کیا“)[5](
مولانا قاضی سید سلیمان سلمان منصور پوری نے رحمة للعالمین میں سورہ یوسف كے
نزول اور یوسف علیہ السلام اور ان كےبھائیوں اور محمد ﷺ اور ان كے بھائیوں كے
واقعے كا تقابلی جائزہ پیش كیا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے كہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورة
مباركہ محض ایك قصے یا سوال كا جواب دینے كےلیے نازل نہیں كی تھی بلكہ اس كو حرف
بحرف آپ ﷺ كی حیات طیبہ پر چسپاں كر دیا اور بالآخر قریش مكہ فتح مكہ كے وقت اسی
حالت میں زیر ہوئے جیسے یوسف كے بھائی زیر ہوئے تھے اور آپ نے وہی جواب دیے جو
یوسف نے اپنے بھائی ك ودیے تھے اور یہ سورہ مباركہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے لیے
ایك پیش گوئی كے ساتھ ساتھ خوش خبری بھی تھی كہ اللہ تعالیٰ آپ كو بھی قوت
اورسلطنت دینے والا ہے۔
رحمة للعالمین میں قاضی منصور پوری رقمطراز ہیں كہ:
1-
حضرت یوسف بوجہ ان كے روحانی كمالات كے ان كے بھائیوں نے حسد كیا اسی طرح نبی
ﷺ پر آپ كے بھائیوں نے حسد كیا
2-
حضرت یوسف چاہ (كنویں ) كے اندر رہے اور نبی كریم غار میں رہے۔
3-
حضرت یوسف نے چند سال جیل میں بسر كیے تھے اور آپ ﷺ نے چند سال شعب ابی طالب
میں۔
4-
حضرت یوسف كو وطن سے دور مصر میں جا كر جاہ وجلال ملا اور آپ ﷺ كو وطن سے باہر
مدینہ میں جا كر كامیابی اور اقتدار ملا۔
5-
حضرت یوسف كے سامنے قحط كے دنوں میں ان كے بھائی التجا لے كے گئے، آپ ﷺ كے
سامنے بھی حضور ﷺ كے بھائیوں نے ایس درخواست پیش كی جب مكہ مكرمہ میں شدید قحط پڑا
تو ابو سفیان نبی كریم ﷺ كی خدمت میں آیا، كہا : یا محمد جئت تأمرنا بصلة الرحم۔
اے محمد آپ تو اپنی تعلیم میں رحم اور قرابت داروں سے حسن سلوك كا حكم دیتے ہیں
دیكھیے ہم قحط سے مر رہے ہیں، دعا كیجئے كہ یہ مصیبت ٹلے اور آپ ﷺ كی دعا سے قط
ٹلا تھا۔
6-
حضرت یوسف نے مصر سے كنعان كو اپنے بھائیوں كے لیے غلہ بھجوایا تھا، اور نبی
كریم ﷺ نے ثمامہ بن اثال كو حكم دے كر نجد سے مكہ میں غلہ بھجوایا تھا۔
7-
حضرت یوسف كی عظمت كو بالآخر بھائیوں نے تسلیم كیا تھا اور نبی كریمﷺ كی عظمت
كابھی ان كے بھائیوں كو بالآخر اعتراف كرنا پڑا تھا
8-
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ایذدہندہ بھائیوں كے لیے یغفراللہ لكم كی دعا
فرمائی تھی، آنحضرت ﷺ نے بھی اپنے چچیرے بھائی ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب
اور عبد اللہ بن امیہ كو جنہوں نے برسوں حضور كو ستایاتھا اسی دعا سے شاد كام
فرمایا تھا۔
9-
حضرت یوسف كی علو مرتبت كا اظہار ان
كے والد یعقوب علیہ السلام نے كیاتھا، اور آنحضرت ﷺ كی رسالت پر فتح مكہ كے دن
حضور كے چچا عباس (جن كو حدیث میں صنو
ابٍ) مثل باپ فرمایا گیا ہے، ایمان لائے تھے۔
10-
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں كو لا تثریب علیكم الیوم كہہ كر معاف فرمایا تھا،
اور آنحضرت ﷺ نے اپنے بھائیوں كو جنہوں نے ہزار ہا ادیتیں دی تھیں، اسی كلام طیب
سے خرسند فرمایا تھا۔
چونكہ ان سب حالات كی اطلاع آنحضرت
ﷺ كو مكہ میں دے دی گئی تھی اور سورة یوسف كا اعلان مكہ ہی میں منكروں كے اندر ہو
چكا تھا، جن كا ظہور اتم فتح مكہ تك ہو گیا، اس لیے سورہ مذكور كو بھی فتح مكہ سے
مناسبت خاص ہے۔ اور تمام سورہ آنحضرت ﷺ كے لیے پیش گوئی كا حكم ركھتی ہے۔
سیرت
طیبہ كےمطالعہ كے آخر تك آپ دیكھیں گے كہ اس سورت مباركہ كو كس طرح اللہ تعالیٰ نے
سو فی صد ایك خواب كی تعبیر كی طرح پورا فرمایا كہ ہر ہر واقعہ جیسے دونوں نبیوں
كے حالات كو جوڑ رہا ہے اور دونوں كی كامیابی ایك حكومت ایك اقتدار ایك سلطنت
اورایك قوت كے طور پر رونما ہوتی ہے۔اور دونوں كے دشمن بھائی رحمت كی بھیك مانگتے
نظر آتے ہیں اور دونوں ہی نبی اپنے بھائیوں كو نہ صرف معاف كرتے ہیں بلكہ كمال
اكرام كرتے ہیں۔)[6](
0 Comments