سيرت طيبه نماز کی فرضیت كے بعد موسی سے ملاقات ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE




دوسرے آسمان پر۔۔۔

اس کے بعد آپؐ کو دوسرے آسمان پر لے جایاگیا۔ وہاں آپؐ کی ملاقات حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔

تیسرے آسمان پر

 تیسرے آسمان پر آپؐ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جن کا حُسن عام انسانوں کے مقابلہ میں ایسا تھا گویا تاروں کے مقابلے میں چودھویں کا چاند معلوم ہوتا تھا۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام تھے۔

چوتھے آسمان پر

چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑسے ملاقات ہوئی۔

 پانچویں  آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوئی

 چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔

 ساتویں آسمان پر پہنچے تو بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا جہاں بے شمار فرشتے آتے اور جاتے تھے۔ وہاں آپؐ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ آپؐ نے سلام کیا انہوں نے مرحبا کہا اور سلام کا جواب دیا۔ ابراہیم ؑ آپؐ سے بہت مشابہ تھے۔

سدرۃ المنتہیٰ

          پھر مزید بلندی کا سفر شروع ہوا اور آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ لے جایا گیا جس کی حیثیت بارگاہِ رب العزت اور عالم خلق کے درمیان حد فاصل کی ہے۔ اسی مقام کے قریب آپؐ نے جنت کا مشاہدہ کیا اور آپؐ نے دیکھاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہاں اپنے نیک اور صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ انسانی ذہن میں اس کا تصور ممکن ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر جبریل ؑ ٹھہر گئے اور آپؐ تنہا آگے بڑھے۔ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہ رب العزت سامنے تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ آپؐ سے ہم کلام ہوا۔اُمت محمدی ؐ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، سورہ بقرۃ کی آخری دو آیات تعلیم فرمائی گئیں، شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی معافی اور بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا اور ارشاد ہوا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے اورجب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں مگر جو بر ائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا،اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔

نماز کی فرضیت كے بعد  موسی سے ملاقات

          اس کے بعد آپؐ واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا اللہ نے آپؐ کوکس چیز کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا پچاس نمازوں کا۔ انہوں نے کہا آپؐ کی امت اس کی پابندی نہیں کرسکتی۔ اپنے پروردگار کے پاس جائیے اوراس میں کمی کا سوال کیجیے۔ آپؐ گئے اور اللہ عز و جل نے دس نمازیں کم کر دیں۔ آپؐ واپس پلٹے اور موسیٰ ؑسے ملے تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ ان کے کہنے پر آپؐ بار بار اوپر جاتے رہے اور ہر بار دس نمازیں کم کی جاتی رہیں۔ آخر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا اور فرمایاگیا کہ یہی پچاس کے برابر ہیں۔

          اس کے بعد آپؐ کی واپسی کا سفر شروع ہوا اور آپؐ واپس بیت المقدس آئے۔ یہاں پر پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپؐ نے ان کو نماز پڑھائی، پھر براق پر سوار ہوئے اور مکہ واپس پہنچ گئے۔

          صبح سب سے پہلے آپؐ نے اپنی چچا زاد بہن حضر ت ام ہانی ؓ کو یہ روداد سنائی۔ پھر آپؐ باہر نکلنے لگے تو انہوں نے آپؐ کی چادر پکڑ لی اور آپؐ سے درخواست کی کہ یہ قصہ لوگوں کو نہ سنائیے کیوں کہ وہ اسے سن کر آپؐ کا مذاق اڑائیں گے۔ مگر آپؐ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے کہ میں ضرور بیان کروں گا۔

          آپؐ حرم کعبہ میں پہنچے تو وہاں قریش کے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے اپنے رب کی جو بڑی بڑی نشانیاں دیکھی تھیں، ان کی خبر اپنی قوم کو دی اور سب کے سامنے پورا قصہ بیان کیا۔ لوگوں نے آپؐ سے پوری روداد سنی تو آپؐ کی تکذیب کی اور آپؐ کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ انہوں نے آپؐ سے بیت المقدس کی کیفیت بیان کرنے کو کہا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نگاہ کے سامنے بیت المقدس کو پیش کردیا چنانچہ آپؐ نے لوگوں کے سوالات کے جواب میں قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں۔ اس طرح ان کو ماننا پڑا کہ آپؐ نے وہاں کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ اب لوگوں نے آپؐ سے مزید ثبوت مانگے۔ آپؐ نے فرمایا،جاتے ہوئے میں فلاں مقام پر فلاں قافلہ سے گزرا جس کے ساتھ یہ یہ سامان تھا اور قافلہ والوں کے اونٹ براق سے بدكے جس سے ایک اُونٹ فلاں وادی کی طرف بھاگ نکلا اور میں نے قافلہ والوں کو اس کا پتہ دیا۔ واپسی پر فلاں وادی میں فلاں قبیلہ کا قافلہ مجھے ملا، سب لوگ سو رہے تھے، میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس سے پانی پیا گیا ہے۔ پھر جیسا کہ آپؐ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا اور بعد میں آنے والے قافلوں سے ان باتوں کی تصدیق ہوئی۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کا کفر اپنی جگہ قائم رہا اور ان ظالموں نے کچھ بھی ماننے سے انکار کر د یا۔

          اس موقع پر کچھ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ قصہ سن کر کہا کہ اگر واقعی محمد ﷺنے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو ضرور سچ ہو گا۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ کہا جاتاہے کہ ابوبکر ؓ  کو اسی موقع پر صدیق کا لقب دیاگیا۔

(واقعہ معراج اس قدر معروف و معلوم ہے كہ قریب قریب تمام سیرت نگار وں  محدثین مفسرین نے اس كو بیان كیا ہے  )

نماز كے اوقات كی  تعلیم

          معراج کے بعد دو دن تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی پانچ نمازوں کو ادا کرنے کے اوقات بتانے حضرت جبرئیل ؑ آتے رہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر نماز اپنی امامت میں پہلے دن اوّل وقت میں پڑھائی اور دوسرے دن، آخر وقت میں۔ پھرفرمایا وَالوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الوَقْتَيْنِہر نماز کا وقت ان دونوں کے درمیان ہے۔)[1](

قبائل عرب کودعوت اسلام

          طائف سے مکہ واپس تشریف لانے کے بعد آپؐ نے دعوت و تبلیغ کا کام زور و شور سے دوبارہ کرنا شروع کر دیا چنانچہ حج کے موسم میں مختلف افراد اور قبائل کو اسلام کی دعوت دی۔آپؐ ہر قبیلہ کے پاس جاکر انہیں اسلام کی دعوت دیتے اور پکارتے کہ اے بنی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں تم کو اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہوں۔ مجھ پر ایمان لے آؤ اور میری تصدیق کرو، فلاح پا جاؤ گے۔ جس طرح نبی کریمؐ نے مختلف قبائل کو مخاطب کیا ایسے ہی مختلف افراد اور اشخاص کو بھی دعوت حق دی۔

سوید ؓ بن صامت کا اسلام

          یہ شاعر تھے، یثرب کے باشندے اور گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ حج یا عمرہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ بولے:

          ’’میرے پاس بھی وہی کچھ ہے جیسا کہ آپ کے پاس ہے۔‘‘

           رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

          ’’تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘

          وہ بولے:

          ’’حکمتِ لقمان۔‘‘

           آپؐ نے فرمایا:

          ’’سناؤ۔‘‘

           انہوں نے چند اشعار سنائے۔ آپؐ نے فرمایا:

یہ کلام یقینا اچھا ہے لیکن میرے پاس جوکچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے، اور وہ قرآن ہے،  ہدایت، نور ہے۔

           اس کے بعد آپؐ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی، وہ بلاتاخیرمسلمان ہوگئے۔ جب واپس(یثرب) مدینہ پہنچے تو جنگ بعاث چھڑ گئی اور اس میں قتل کردیے گئے۔)[2](

طفیلؓ بن عمرو دوسی

          یہ قبیلہ دوس کے ایک بڑے سردار اور اس کے اشراف میں سے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا قصہ خود ان سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

 میں قبیلہ دوس کا ایک بڑا شاعر تھا، کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں قریش کے لوگوں نے میرا استقبال کیا اور اس کے بعد نبی کریم ﷺکے خلاف میرے کان بھرنا شروع کر دیے اور آپؐ کے خلاف مجھے ورغلایا، یہاں تک کہ میں نے اپنے طور پر یہ طے کر لیا کہ نہ آپؐ کی کوئی چیز سنوں گا اور نہ آپؐ سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی تاکہ آنحضرت ؐ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ سکے۔ لیکن اس کلام کا سننا اللہ کی جانب سے لکھا ہوا تھا، چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا۔ پھر میں نے اپنے جی میں کہا افسوس مجھ پر،میں تو بڑی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش رکھنے والا شاعر ہوں۔ مجھے برے اور بھلے کی اچھی طرح پہچان ہے۔ پھر کیوں نہ اس شخص کی بات سنوں اگر اچھی ہوئی تو قبول کر لوں گا اور اگر بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپؐ گھر کو پلٹے تو میں بھی پیچھے ہو لیا۔ آپؐ اندر داخل ہو ئے تو آپؐ کے پیچھے میں بھی داخل ہو گیا۔ اور آپؐ کو اپنی آمد کا واقعہ اور قریش کے لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت بیان کی۔ پھر اپنے کان میں روئی ٹھونسنے اور اس کے باوجود آپؐ کی بعض باتیں سن لینے کا قصہ بیان کیا۔ اس کے بعد میں نے نبی کریم ﷺ سے اپنی بات پیش کرنے کو کہا۔ آپؐ نے اسلام کی دعوت میرے سامنے رکھی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے کہ میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی، چنانچہ میں نے وہیں اسلام قبول کرلیا۔

           پھر وہ اپنی قوم میں پلٹے اور لوگوں کو اسلا م کی طرف دعوت دی۔ ان کی کوششوں سے ان کے قبیلے کے کئی لوگ ایمان کی دولت سے مالامال ہو گئے۔)[3](

ابوذر غفاری ؓ  کا قبول اسلام

          حضرت ابوذر غفاری ؓ کا یثرب کے اطراف کے قبائل سے تعلق تھا۔ سویدبن صامت اور ایاس بن معاذکے ذریعے سے یثرب میں رسول اللہ ﷺکی بعثت کی خبر ان تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو نبی ؐ کی خبر لینے اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ ان کا بھائی مکہ آیا۔ نبی كریمﷺ سے ملاقات کی اور واپس آکر ابوذرغفاری کو بتایا کہ وہاں میں جس آدمی سے ملا ہوں وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور اعلیٰ ترین اخلاق کا مالک ہے، اور ان سے ایسا کلام میں نے سنا جو شعر نہ تھا۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ  کابیان ہے :

 اپنے بھائی کی معلومات سے میری تشفی نہیں ہوئی لہٰذامیں نے خود جانے کا قصد کیا اور زادِ راہ لے کر مکہ پہنچا۔ مکہ پہنچ کر میں نے آپؐ کو تلاش کیا لیکن میں آپؐ  کوپہچانتا نہ تھا اور نہ کسی سے پوچھنا مجھے گوارا تھا، اسی تلاش میں رات گزر گئی۔ اس وقت میرے پاس سے علی کا گزر ہوا،کہنے لگے، اجنبی معلوم ہوتے ہو؟ میں نے کہا، ہاں۔ انہوں نے کہا، اچھا تو گھر چلو، میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتارہا تھا۔

صبح ہوئی تو میں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپؐ سے ملاقات ہو سکے لیکن آپؐ کو پہچانتا نہ تھا۔ آخر میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ میرے پاس سے پھر علی گزرے۔ مجھے دیکھا تو بولے: ’’اس آدمی کو ابھی اپنا ٹھکانا معلوم نہ ہوسکا‘‘؟ میں نے کہا، نہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اچھا تو میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے اور تم اس شہر میں کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا اگر آپ رازداری سے کام لیں تو بتاؤں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں ایسا ہی کروں گا۔ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کرکے آئے مگر اس نے پلٹ کر کوئی ایسی بات نہ بتائی جس سے میری تشفی ہوتی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کرلوں۔ علی نے کہا: ’’بھئی تم صحیح جگہ پہنچے ہو۔ دیکھو میں بھی انہیں کی طرف جا رہا  ہوں۔ جس جگہ میں داخل ہو جاؤں تم بھی داخل ہو جانا اور ہاں اگر میں کسی ایسے شخص کو دیکھوں جس سے تمہارے لیے خطرہ ہو تو دیوار کی طرف اس طرح چل پڑوں گا گویا اپنا جوتا ٹھیک کر  رہا ہوں لیکن تم راستہ چلتے رہنا۔‘‘ اس کے بعد علی روانہ ہوئے اور میں بھی ساتھ ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ نبیؐ کے پاس جا  داخل ہوا اور اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ آپؐ نے اسلام کی دعوت میرے سامنے پیش کی اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:

اے ابوذر! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ جب تک ہماری بات اچھی طرح ظاہر نہ ہو جائے۔

 میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا۔ اس کے بعد میں مسجد حرام آیا اور اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ قریش کے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ عباس نے مجھے بچایا۔ دوسرے دن صبح میں دوبارہ وہاں گیا اور وہی کام کیا جو کل کیا تھا۔وہ دوسرے دن پھر مجھ پر پل پڑے اور عباس  ہی نے مجھے بچایا)[4](۔

          اس طرح مکہ سے باہر کئی سعید روحوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے قبیلوں میں جاکر اسلام کی دعوت کو پھیلایا۔

اسلام کی مقبولیت

          مکہ اور طائف کے لوگوں سے مایوس ہوکر نبیؐ نے عرب کے دوسرے قبائل کی طرف توجہ فرمائی۔ آپؐ ان قبائل کے پاس جاتے جو حج کے موقع پر منیٰ میں جمع ہوتے تھے یا عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے میلوں میں شریک ہونے کے لیے مکہ آتے تھے۔ طائف کے سفر سے پہلے بھی آپ ان مواقع پر ان قبائل عرب کے پاس جاتے تھے لیکن اب آپؐ نے دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ قبائل کے اشراف اور سرداروں سے اپنی حمایت اور اس دعوت کے کام میں مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ ان سے کہتے کہ میری مدد کر و تاکہ میں اللہ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤں کیوں کہ قریش نے مجھے اس کام سے روک دیا ہے۔آپؐ ان قبائل سے فرماتے کہ مجھے اپنے  ہاں  پناہ  دو اور میری حمایت کرو تاکہ میں اپنے رب کا کلام پہنچاؤں۔ جہاں جہاں نبی کریم ﷺجاتے، ابوجہل اور ابولہب اور قریش کے دوسرے شریر سردار مسلسل آپ کے پیچھے لگے رہتے اور ان قبائل کو آپؐ سے گمراہ کرنے اور ورغلانے کی کوشش کرتے۔ بسااوقات وہ آپؐ   کو پتھر مارتے اور آپؐ پر خاک پھینکتے تھے، مگر آپؐ نے اپنا کام جاری رکھا۔

وہ قبائل جن سے آپ ﷺ ملے

          آپؐ اکثر و بیشتر قبائل کے پاس گئے اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ ان میں خاص طورپر قابل ذکر قبائل یہ ہیں:

۱۔       کلب: یہ قضاعہ کی ایک شاخ تھی جس کا علاقہ شمال عرب میں دومۃ الجندل سے تبوک تک وسیع تھا۔

۲۔       کندہ: جنوبی عرب کا ایک بڑا قبیلہ، حضرموت سے یمن تک اس کا علاقہ پھیلا ہوا تھا۔

۳۔      بنی بکر بن وائل: یہ عرب کے بڑے لڑاکا قبیلوں میں شمار ہوتا تھا اور وسط عرب سے مشرقی ساحل تک اس کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔

۴۔      بنی البکاء: بنی عامر بن صعصعہ کی ایک شاخ، جو مکہ اور عراق کی سرحد کے راستے پر آباد تھی۔

۵۔       ثعلبہ بن عکابہ: یہ بنی بکر بن وائل کی ایک شاخ تھی۔

۶۔       بنی شیباں بن ثعلبہ: یہ بنی ثعلبہ بن عکابہ کی ایک شاخ تھی۔

۷۔      بنی الحارث بن کعب: بنی تمیم کی ایک شاخ تھی۔

۸۔      بنی حنیفہ : یہ بنی بکر بن وائل کی ایک شاخ تھی جو یمامہ میں رہتی تھی۔ مسیلمہ کذاب کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔ اس کا شمار عرب کے بڑے لڑاکا قبائل میں ہوتا تھا۔ جب حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں فتنہ ارتداد اٹھا  تو اس میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ سخت مقابلہ اسی قبیلہ سے پیش آیا تھا۔

۹۔       بنی سُلَیم: یہ قبائل قیس عَیَلان میں سے ایک بڑا قبیلہ تھا۔ اس کا مسکن خیبر کے قریب نجد کا بالائی علاقہ تھا اور وادی القریٰ اور یتماء تک یہ لوگ پھیلے ہوئے تھے۔

۱۰۔      بنی عامر بن صعصعہ: یہ ہوازن کی ایک شاخ تھی اور ہوازن قیس عَیَلان میں سے تھے۔ یہ لوگ نجد میں رہتے تھے پھر طائف کے ایک حصے تک پہنچ گئے تھے۔

۱۱۔      غَسّان: یہ جنوبی عرب کی ایک بڑی قوم تھی جو شمالی عرب میں جاکر بس گئی تھی۔ اس میں بہت سے قبائل تھے جن میں سے بعض عیسائی ہوگئے تھے اور کچھ مشرک تھے۔ عیسائیوں کی ایک ریاست بھی سلطنت روم کے تابع تھی۔

          ان قبائل کے علاوہ آپؐ بنی عبداللہ، فزارہ، بنی محارب بن خصفہ، بنی عبس اور بنی عذرہ کے قبائل کے پاس بھی گئے جو قوت و طاقت رکھنے والے لوگ تھے اور دیگر قبائل کی نسبت ایسی حیثیت رکھتے تھے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی آپ کی بات مان لیتا اور دعوتِ اسلامی کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتا تو اُمید کی جاسکتی تھی کہ اس سے دین کو بڑی تقویت ملتی۔

          عرب کے ان قبائل سے ملاقاتوں میں نبی کریم ﷺ کو طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ اکثر قبائل نے آپؐ کی دعوت قبول كرنے سے انکار کردیا۔ کچھ قبائل نے نہ صرف انکار کیا بلکہ نہایت بری طرح پیش آئے۔ اس طرح یہ قبائلِ عرب اس نعمت سے محروم ہو گئے جو خود چل کر ان کے پاس آئی تھی۔)[5](

حضرت سودہ ؓ سے شادی

اسی سال شوال ۱۰ نبوی میں نبی کریمﷺ نے حضرت سودہ ؓ بنت زمعہ سے شادی کی۔ یہ ابتدائی دور کی مسلمان  اور ایک سن رسیدہ  بیوہ خاتون تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ  کی وفات کے بعد یہ پہلی بیوی ہیں جن سے آپﷺ  نےشادی کی۔


[1]           سنن الترمذی، حدیث نمبر: 149۔

[2]           سیرت ابن ہشام : 1/ 427۔

[3]           ایضاً: 1/182-183۔

[4]           صحیح البخاری: حدیث نمبر:3861۔

[5]           مولانا صفی الرحمٰن مبارك پوری نے الرحیق المختوم میں یہ  خلاصہ  بیان كیا ہے،جبكہ علامہ منصور پوری نے رحمة للعالمین میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے دیكھیے، الرحیق المختوم:1/87 ورحمة للعالمین:1/74۔


Post a Comment

0 Comments