سيرت طيبه غزوات و سرایا پر ایک نظر ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




غزوات و سرایا پر ایک نظر

غزوہ ایسی مہم جوئی یا نقل و حرکت کو کہا جاتا ہے جس کی قیادت رسالت مآبﷺ نے کی ہو، چاہے وہ نقل و حرکت قتال کے لیے ہو، تبلیغ کے لیے ہو، صلح کرانے کے لیے ہو، یا کسی پیش آمدہ واقعہ سے پہلے خبردار کرنے کے لیے۔

امام بخاری ؒ نے باب مرض النبی ﷺ کے ضمن میں ایسے ۱۹ غزوات کا ذکر کیا ہے۔ ([1])

سریہ ہر ایسی نقل و حرکت کو کہا جاتا ہے جو درج بالا مقاصد میں سے کسی مقصد کے حصول کے لیے کسی ایک یا بہت سے صحابہ نے کی ہو۔

جہاد اور شہادت کی فضیلت و اہمیت سے انكار کے بارے میں سوچنا بھی منافقت ہے لیکن کئی ایک کتبِ سیرت کا مطالعہ کرنے سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سنہ۲ھ سے۹ھ تک صرف جنگیں ہی کیں اور جہاد و قتال جاری رکھا۔ مستشرقین کے اعتراضات اپنی جگہ، متقدمین سیرت نگاروں سے لے كرشبلی اور مبارک پوری تک سب نے’’تلواروں کی چھاؤں‘‘سےآغاز کیا ہے۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ نے اس سلسلے میں بھر پور تحقیق کی ہے اور تمام غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہوئے یہ تجزیہ کیا ہے کہ مدنی دور میں جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں تمام تر دفاعی جنگیں تھیں یا فریق مخالف کی عہد شکنی کے جواب میں کارروائی کی گئی تھی۔اور ان جنگوں کی تعدا د سات ہے۔غزوہ بدر میں قریش مکہ تقریباً 310كلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے مدینہ کی طرف آئے تھے اور ان کا مقصد مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔غزوہ احد میں بھی وہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کی خاطر مسلمانوں پر حملہ کرنے آئے تھے، غزوہ خندق میں بھی ان کا مقصد مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا تھا(نعوذباللہ)۔غزوہ خیبر ان یہودیوں کے خلاف تھا جنہوں نے مدینہ سے نکالے جانے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف دشمنی میں پیش پیش رہتے ہوئے کفار ِقریش کی مدد کی تھی۔غزوہ خندق میں مسلمانوں کے خلاف لڑ چکے تھے اور اب پھر جنگ کی تیاری میں مصروف تھے۔

جنگ موتہ میں سفیر رسول حارث بن عمر ازدی کو غسانیوں نے شہید کر دیا تھا۔اس پر جنگ ہوئی اور تین ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ کفار کو شکست دی۔فتح مکہ کو اگر جنگ قرار دیا جائے تو وہ نبی کریمﷺ کا شہر تھا جہاں سے کفار نے آپ كو ساتھیوں سمیت ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا۔اس سے قبل صلح حدیبیہ میں کفار کی طے شدہ شرائط کے مطابق معاہدہ ہوا جو انہوں نے خود توڑ دیا، اس کے باوجود بغیر کسی جنگ کے مکہ فتح ہوا، اور آپؐ نے عام معافی دے دی۔غزوہ حنین انہی قبائل کے خلاف تھا جنہوں نے قریش مکہ سے مل کر بارہا مسلمانوں پر حملے کیے تھے۔فتح کے بعد نبی رحمتﷺ نے ان کے سب قیدی چھوڑ دیے تھے، بلکہ مال غنیمت بھی واپس کر دیا تھا۔

قاضی سلیمان منصور پوری نے پوری مدنی زندگی میں انہی سات جنگوں کو لڑائی یا غزوات قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو ۷۵غزوات و سرایا کتبِ سیرت و مغازی میں مذکورہیں، وہ جنگیں نہیں ہیں بلکہ درج ذیل اغراض و مقاصد کی خاطر نقل و حرکت تھی:

• تکمیلِ معاہدات اور تبلیغ و دعوت کے لیے جیسے صلح حدیبیہ غزوہ مروان وغیرہ۔

• حملہ آوروں کی نقل و حرکت جاننے کے لیے جیسے سریہ ابو قتادہ اور سریہ نخلہ وغیرہ۔

• دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے تاکہ وہ ڈر جائے اور حملہ نہ  کرے۔اس غرض کے لیے سب سے زیادہ نقل و حرکت رہی اور علامہ منصور پوری نے اس طرح کے غزوات و سرایا کی تعداد ۳۳ بیان کی ہے۔([2])

• ڈاکوؤں کو سزا دینے کے لیے جیسے سریہ عرینین اور سریہ ام قرضہ۔

• دیگر اقوام کی طرف سے معاہدات توڑنے اور غدر کرنے کی بنا پر،جیسے غزوہ بنو قینقاع، سریہ رجیع وغیرہ۔

• غلط فہمی کی بنا پر جیسے سریہ خلاد، سریہ عبداللہ بن رواحہ۔

• بت شکنی : یہ بت شکنی ان لوگوں کی مرضی کے مطابق تھی جن کے پاس بت تھے جیسے حضرت خالد بن ولیدؓ نے قبیلہ بنو کنانہ کا بت توڑا۔اسی طرح بنو ہذیل کا بت حضرت عمر و بن العاص نے اور قبیلہ اوس اور خزرج کا بت’’منات‘‘سعد الاشہلی نے توڑا تھا۔

• دشمنان جنگ کا تعاقب: جنگوں کے خاتمے پر آپ ؐ دشمن کے پیچھے دور تک جاتے تھے تاکہ ان کی واپسی کا یقین ہو جائے اور اگر وہ پلٹ کر آئیں تو جواب دیا جا سکے جیسے غزوہ السویق، حمراء الاسد وغیرہ۔

• مقامی یا علاقائی واقعات میں مہم جوئی جیسے کعب بن اشرف کا قتل، ابن الحقیق کا قتل اور غلام کو گرفتار کرنا وغیرہ۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں چھ یا سات مسلح جنگیں کیں اور ان میں بھی کسی جنگ میں آپ  کی طرف سے اقدامی وار نہیں کیا گیا بلکہ دشمن کی طرف سے ہی حملہ ہوا اور اس کا جواب دیا گیا، نیز ہر جنگ میں قریش مکہ بہر صورت فریق مخالف تھے اور غزوہ خیبر اور حنین میں بھی اصل سبب یہ تھا کہ یہودیوں نے خیبر میں اور ہوازن اور ثقیف نے حنین میں کفارِ قریش کی مدد کرنے کا جرم کیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل دشمن آپ  کے قبیلہ قریش ہی کے لوگ تھے۔دیگر اقوام ان کی حلیف ہونے کی وجہ سے دشمنی کرتی تھیں یا ان سے مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوتی تھیں۔

قاضی سلیمان منصور پوری نے بھر پور تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

 ’’افسوس ہے کہ مسلمانوں کی ہر ایک کوشش کا نام (جو انہوں نے جنگ سے بچنے کے لیے کی) لوگوں نے جنگ رکھ لیا ہے۔یہ لوگ نہ واقعہ کی علت بیان کرتے ہیں نہ مسلمانوں کے مدعا کی تلاش، نہ مسلمانوں کے افعال کا تفحص اور پھر جلدی سے اپنی رائے بھی قائم کر لیتے ہیں۔اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے خبر مسلمان بھی  سمجھنے لگے کہ مسلمانوں کی ہر نقل وحرکت جنگ ہی کے لیے تھی۔([3])

نبی کریم ﷺ کے غزوات میں فریقین کا جانی نقصان اور دیگر اقوام کی مذہبی لڑائیوں میں  جانی نقصان کا موازنہ

مندرجہ بالا تجزیہ کو یکسر رد بھی کر دیا جائے اور یہ کہا جائے  کہ آپ کے مدنی عہد میں ۸۳غزوات و سرایا ہوئے، پھر بھی نتائج درج ذیل تھے۔                            

مسلم

كافر

تمام جنگوں میں ایک مسلمان قیدی ہوا

۶۵۶۴کفار گرفتار ہوئے

۱۲۷مسلمان زخمی ہوئے

زخمی کوئی نہیں ہوا

۲۵۹مسلمان شہید ہوئے

۷۹۵کفار قتل ہوئے

آپ ﷺ کے تمام غزوات و سرایا میں مرنے والے کل افراد کی تعداد۱۰۱۸ہے۔([4])

قیدیوں کی تعد اگرچہ زیادہ معلوم ہوتی ہے مگر ان میں ۶۰۰۰ قیدی صرف جنگ حنین میں گرفتار ہوئے تھے جو آپ نے کمال رحمت کے باعث اپنی رضاعی بہن شیماء کے تعارف کے بعد نہ صرف آزاد کر دیے تھے بلکہ ان سے حاصل کردہ مال غنیمت بھی لوٹا دیا تھا۔نیز انہیں کپڑے بھی دیے تھے۔اس طرح بقایا تعداد ۵۶۵ ہے۔ان میں سے بھی سب کے سب لطف و احسان کے تحت چھوڑ دیے گئے یا مسلمان ہو گئے تھے۔صرف دو افراد اپنی سابقہ بدعہدیوں کے باعث سزا کے مستحق ٹھہرے۔

رحمۃ للعالمین ﷺ نے عرب کے خون خوار قبائل میں جو شرک، بت پرستی، قتل و غارت، خاندانی لڑائیوں اور خرافات میں اس قدر گھری ہوئی تھی کہ اس دور کو دور ِجہالت کہا جاتا ہے۔ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے جو جدوجہد فرمائی اس سے ایسا انقلاب برپا ہوا کہ یتیموں کا مال لوٹنے والے یتیموں کے والی بن گئے، انتقام کے رسیا عفو و درگزر کے پیکر بن گئے، دوسرے کا مال اور عورتیں اپنے لیے حلال سمجھے والے دوسروں کی عزت و مال کے نگہبان بن گئے۔اس تبدیلی کے لیے مختصر ترین مدت میں ۱۰۱۸افراد لقمہ اجل بنے۔

ان مقتولین میں سے بھی ۶۰۰ایسے یہود بنی قریظہ ہیں جنہوں نے عین جنگ میں دشمن کا ساتھ دیا تھا اور ایک عدالتی فیصلے کے مطابق ان کے ۶۰۰افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔اس طرح باقاعدہ جنگ میں کام آنے والوں کی تعداد صرف ۴۱۸بنتی ہے۔ڈاکٹر محمد عمارہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے تمام غزوات میں مجموعی طور پر ۲۰۳کفار مارے گئے اور ۱۸۳مسلمان شہید ہوئے۔([5])

غزوات رسول اور دیگر جنگوں میں مقتولین کی تعداد کا جائزہ

غزوات رسول میں ۳۸۶یا ۴۱۸

یہودیوں کی غیر یہود کے ساتھ جنگوں میں مقتولین: ۱۶۳۵۶۵۰

یہودیوں کی آپس میں جنگوں میں مقتولین: ۳۵۲۸۲۷

یہ اعداد و شمار خود یہودیوں کی مقدس کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم میں مقتولین کی تعداد: ۸۵۳۸۳۱۵

زخمیوں کی تعداد: ۲۱۲۱۹۴۵۲

مجموعی انسانی جانوں کا خسارہ: ۳۷۵۰۸۶۸۶ ([6])

جب کہ دوسری جنگ عظیم میں تقریباً ۸۰۰۰۰۰۰۰ جانیں ضائع ہوئیں۔([7])  عیسائیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کے عدالتی احکامات کے مطابق قتل ہونے والوں کی تعداد: ۱۲۰۰۰۰۰۰۔ جنگ عظیم اول میں مختلف ممالک کے مقتولین کی تعداد بحوالہ اخبار ہمدم ۱۷اپریل۱۹۹۹ء۔

روس:    ۱۷لاکھ

جرمنی:   ۱۶لاکھ

فرانس:   ۱۳لاکھ

اٹلی چار لاکھ: ۶۰ہزار

آسٹریا:   ۸لاکھ

بلغاریہ:   ایک لاکھ

رومانیہ:   ایک لاکھ

سرویا مانٹی نیگرو:     ایک لاکھ

امریکہ:   ۵۰ہزار

ترکی:    ۲لاکھ ۵۰ہزار

بیلجیم:   ایک لاکھ دو ہزار

کل مقتولین:۷۳لاکھ ۳۸ہزار

انٹر نیٹ کی مختلف ویب سائٹوں پر یہ تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔

نبی كریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہونے والے تمام غزوات میں مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہ کر سکی جب کہ دور حاضر میں آپ ؐ کی ذات اقدس کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے  اور مہذب کہلانے والوں کی طرف سے قتل و غارت کے جو ریکارڈ قائم ہوئے ان کی تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔آج بھی سب سے زیادہ نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ قوم  اپنے جغرافیائی حدود سے ہزاروں میل دورجا کر جو گل کھلا رہی ہے، اس کی ہلکی سی تصویر موجودہ دورکےتیز ترین  ذرائع ابلاغ کے باعث آئے روز دیکھنے میں آتی رہتی ہے،جب شہروں کے شہر اپنے باسیوں سمیت ملیا میٹ کر دیے جاتے ہیں، کہیں ڈرون حملوں سے نہتے شہری لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، کہیں باراتیں خاک و خون میں لت پت کر دی جاتی ہیں، کہیں مساجد اپنے نمازیوں سمیت زمین بوس ہو جاتی ہیں۔دنیا کےمختلف ممالک میں نبی كریم ﷺ کے ماننے والوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو دیکھ کرغیر جانبدار مؤرخ خود فیصلہ کرلے گا کہ دہشت گرد کون ہے؟

سرحدوں كی نگرانی كےلیے سب سے پہلی مہم

قریش مکہ، مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دے رہے تھے اور مسلسل مہم جوئی سازشوں اور مخالفتوں میں مصروف تھے۔اس بنا پر نبی کریم ﷺ نے بھی علاقے کی خبر گیری کے لیے مختلف اوقات  اور اطراف میں صحابہ کرامؓ کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بھیجنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔

شعبان سنہ ۱ہجری میں جنگ کی اجازت ملی تو اس کے بعد رمضان المبارک میں آپ ؐنے اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب کی سربراہی میں ایک  تیس رکنی دستے  کو روانہ کیا تاکہ وہ دشمنوں کی نقل و حرکت کا پتہ لگائے۔سیف البحر کے ساحل پر ابو جہل تین سو شہسواروں کے ساتھ موجود پایا گیا۔ابن ہشام کہتے ہیں  مجدی بن عمرو جہنی جو دونوں فریقوں کا حلیف تھا، درمیان میں حائل ہو گیا اور اس طرح بچ بچاؤ ہو گیا اور فریقین نے اپنا اپنا راستہ لیا۔)[8](اس کے ایک ماہ بعد آپ نے دشمنوں کی نقل و حرکت جاننے کے لیے حضرت عبیدہ بن الحارث کی قیادت میں ساٹھ یا ستر رکنی جماعت بھیجی جن میں سب کے سب مہاجرین تھے۔اس جماعت کا جھنڈا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب کے ہاتھ میں تھا اور اس کا رنگ سفید تھا۔دوسری طرف ابو سفیان بھی بھاری نفری کے ساتھ نکلا ہوا تھا۔بطن رابغ میں جو جحفہ سے ۱۰ میل کے فاصلے پر ہے ان دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔([9]) تاہم جنگ کی نوبت نہیں آئی۔([10])

حضرت عائشہؓ سے شادی

مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے شادی کی اور ان کا حجرہ مسجد سے متصل بنوایا۔حضرت عائشہؓ بنت ابو بکر صدیقؓ ۹سال تک حضورﷺ کے ساتھ رہیں۔ آپ نے سب سے زیادہ احادیث روایت کیں۔آپ بہت بڑی عالمہ، فقیہہ، مجتہدہ اور ماہر لغت تھیں۔حضرت عائشہؓ کے علاوہ نبی کریم  ﷺ نے کسی بھی کنواری خاتون سے نکاح نہیں کیا۔اس موقع پر آپ ؐ نے ۴۰۰درھم مہر ادا کیا۔

ہجرت کے ۹ ماہ بعد ذوالقعدہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی قیادت میں  بیس، اکیس افراد پر مشتمل دستے کو قریش کے قافلے کا پتا لگانے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لوگ ۴، ۵ روز کی مسافت کے بعد جب خرار پہنچے تو قافلہ وہاں سے نکل چکا تھا۔

حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ  کا نکاح

محرم ۲ھ میں جب آپؐ کی عمر مبارک ۵۳ سال اور دس ماہ تھی، اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کرایا۔شوال۲ھ میں رخصتی ہوئی۔سیدہ فاطمہؓ نبی کریم ﷺ کی چوتھی صاحبزادی تھیں۔انہوں نے دعوت اسلام کے ابتدائی دورِ ابتلاء کو نہ صرف دیکھا بلکہ قریش کے تمام ظلم و ستم سہنے میں اپنے والد ماجد کا ساتھ دیا۔سیدہ خدیجہ ؓ آپ کی ولادت پر بے حد خوش ہوئیں کیونکہ ان کی اپنے والد گرامی سے مکمل مشابہت تھی۔سیدہ سے نکاح کا پیغام بھیجنے والوں میں قریش کے نامی گرامی حضرات، عبد الرحمان بن عوف، ابو بکر صدیق اور  عمررضی اللہ عنہم وغیرہ شامل تھے،لیکن آپ ؐنے توقف فرمایا، یہاں تک کہ حضرت علی ؓ نے پیغام بھیجا۔ خود حضرت علی فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ نبی كریمﷺ کے پاس پیغام ِنکاح لے کر جاؤں لیکن میرے پاس مہر کے لیے کچھ نہ تھا،تاہم میں نے پھر بھی پیغام نكاح دے دیا۔نبی كریمﷺ نے فرمایا تمہارے پاس (مہر کے لیے) کچھ ہے؟میں نے عرض کیا نہیں! آپ ؐنے فرمایا جو حطمی زرہ میں نے تمہیں دی تھی وہ کہاں ہے؟ عرض کیا میرے پاس ہے۔ فرمایا وہ دے دینا اور وہی زرہ نکاح کا مہر بن گئی۔دونوں میاں بیوی نے دنیوی لحاظ سے بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری۔کھانے اور پہننے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا، چکی پیس پیس کر حضرت فاطمہ کے ہاتھوں پر آبلے  پڑ گئے تھے۔ایک بار شکایت بھی کی لیکن آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں، کہنے لگیں، کیوں نہیں! فرمایا وہ کلمات جو مجھے جبریل نے بتائے ہیں،تم دونوں ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔اور جب سونے کے لیے جاؤ تو ۳۳مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔حضرت علی فرماتے ہیں، اس کے بعد میں نے کبھی یہ کلمات ترک نہیں کیے۔ابن الکواء نے پوچھا کیا آپ نے جنگ صفین کے موقع پر بھی ترک نہیں کیے؟فرمایا اے اہل عراق اللہ تمہیں غارت کرے، اس رات بھی میں نے یہ کلمات نہیں چھوڑے۔([11])

ولادت حسنین کریمین

سنہ ۳ ہجری میں سیدنا حسن ؓ کی ولادت ہوئی جو شکل  و صورت میں حضور ﷺ کے مشابہ تھے اور ایک سال بعد سیدنا حسینؓ کی ولادت ہوئی۔ یہ دونوں بچے نبی کریم ﷺ کو بہت محبوب تھے۔آپ ؐ فرماتے تھے اللہم انی احبھما فاحبھما و احب من یحبھما ’’اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں کو پسند فرما اور جو ان سے محبت کرے اس کو اپنا محبوب بنا۔‘‘

صفر ۲ ھ میں رسول اللہ ﷺ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے قافلہ کی قیادت فرماتے ہوئے ودان تشریف لے گئے جو ابواء کے نام سے بھی مشہور ہے۔اس سفر کا ایک مقصد قریش کے معاشی مقاطعہ کے پیش نظر شام سے آنے والے قافلے کو روکنا تھا۔قافلہ تو نکل چکا تھا لیکن آپؐ پہلی بار کسی مہم میں خود مدینہ سے باہر نکلے تھے، اسی دوران میں آپ قبیلہ بنو ضمرہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے تحریری معاہدہ ہوا۔([12])

اسی طرح ربیع الاول دو ہجری میں آپ بنفس نفیس بواط تشریف لے گئے۔غزوہ سفوان جسے بدر اولیٰ کہا جاتا ہے، آپ کی قیادت میں ہوا جب كہ جمادی الاخریٰ میں آپ ؐ غزوہ ذوالعشیرہ میں  تشریف لے گئے، ان تمام جنگی مہمات میں کوئی لڑائی یا قتل و غارت نہ ہوئی البتہ دشمن پر دھاک بیٹھ گئی کہ مسلمان باخبر ہیں اور ہماری کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔

تحویل قبلہ کا ذکر بالتفصیل گزر چکا ہے۔یہ حکم بھی پندرہ شعبان ۲ ہجری کو نازل ہوا اور پہلی مرتبہ بیت اللہ شریف کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی گئی۔([13])

فرضیتِ زکوٰۃ

کلمہ توحید کے بعد دوسرا رکنِ اسلام نماز ہے۔ نماز مسلمانوں پر شب معراج کے موقع پر فرض ہوئی تھی اور یہ نبوت کا دسواں سال تھا، جب کہ زکوٰۃ جو اسلام کا تیسرا  رکن ہے، یہ بھی مکہ مکرمہ میں فرض ہو چکی تھی کیونکہ  جو آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں، ان میں صریحاً زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے تفصیلی احکام بتدریج نازل ہوئے۔شروع شروع میں بالعموم خرچ کرنے کا حکم ہوتا  اور نہ خرچ کرنے والے پر عتاب ہوتا تھا جیسا کہ سورۃ الماعون میں ہے۔مدینہ منورہ میں مہاجرین کی آمد کے بعد زکوٰۃ و صدقات کی ضرورت بڑھ گئی اور مسلمانوں کو خرچ کرنے پر ابھارا جانے لگا۔حکم ہوا کہ جو زائد مال ہو خرچ کر دیا جائے۔([14]) پھر عمدہ مال خرچ کرنے کا حکم ہوا کیونکہ لوگ وہ مال غریبوں کو دیتے تھے جو اپنے کام کا نہ رہا ہو جیسا کہ آج کل جب حادثات کے موقع پر مدد کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ پرانے کپڑے، ناکارہ بستر اور پھٹے جوتے دے کر بڑا احسان جتاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو یہ چیز انتہائی ناپسند ہے۔فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ  ([15])

چنانچہ زکوٰۃ کے احکام بتدریج نازل ہوتے رہے اور بالآخر سورہ توبہ کی یہ  آیت:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا۬ئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَةً مِّنَ اللہِ ([16])

نازل ہوئی تو زکوٰۃ کے مصارف بھی طے ہو گئے اور ادائیگی کی مقدار بھی تفصیل سے بیان ہو گئی۔نبی کریم ﷺ نے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے بھیج کر زکوٰۃ کی وصولی کو لازمی قرار دے دیا۔اس کےبعد نماز کی طرح زکوٰۃ کی بھی مکمل پابندی ہوتی رہی  یہاں تک کہ ابو بکر صدیقؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی اور فرمایا کہ جب تک لوگ زکوٰۃ نہ دیں گے میرے لیے ان کا خون بہانا جائز ہے، اللہ  کی قسم اگر وہ لگام جو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے تھے، روکیں گے تو ان سے لڑوں گا۔([17])

[1]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: 4471۔

[2]           قاضی محمد سلمان سلیمان منصور پوری، رحمۃ للعالمین:۲۰۴/۲ پروگریسو بکس لاہور۱۹۹۹ء۔

[3]           رحمۃ للعالمین:2/182، 183۔

[4]           ایضاً:2/211 ۔

[5]           ڈاکٹر محمد عمارہ، الغرب والاسلام:84۔

[6]           جنگ عظیم اول ۱۹۱۴-۱۸صرف ۵ سال میں مقتولین کی مجموعی تعداد مذکور ہے جب کہ سید سلیمان منصور پوری نے اس کی مزید تفصیلات دی ہیں۔دیکھیے رحمۃ للعالمین: ۲۱۲/۲۔

[7]           جان ڈیون بورڈ، ائڈیالوجی آف محمد اینڈ قرآن بحوالہ رحمۃللعالمین۲۱۲/۲۔

[8]           سیرة ابن ہشام، سریہ حمزۃ الیٰ سیف البحر:۵۹۵/۱۔

[9]           الشامی، محمد بن یوسف الصالحی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد:۱۳/۶۔

[10]       البدایة والنہایة:۳/۲۸۷۔

[11]         مسند احمد، مسند علی بن ابی طالب:۸۳۸۔

[12]         طبقات ابن سعد:۲۷۵/۱۔

[13]         سورۃ البقرة: ۱۴۴۔

[14]         سورۃ البقرة: ۲۱۹۔

[15]         سورۃ البقرة: ۲۶۸۔

[16]         سورۃُ التوبہ: ۶۰۔

[17]         سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۱۵۵۶

Post a Comment

0 Comments