سيرت طيبه کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب

 کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہ دُنیا کے کسی کونے میں ہو، اُسے بالکل ناک کی سیدھ میں کعبے کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ہر وقت ہر شخص کے لیے ہر جگہ مشکِل ہے۔ اسی لیے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، نہ کہ کعبے کی سیدھ میں۔ قرآن کی رُو سے ہم اس بات کے لیے ضرور مُکَلف ہیں کہ حتّی الامکان صحیح سَمت كعبہ کی تحقیق کریں، مگر اس بات پر مُکَلف نہیں ہیں کہ ضرور بالکل ہی صحیح سَمْت معلوم کر لیں۔ جس سمت کے متعلق ہمیں امکانی تحقیق سے ظنِ غالب حاصل ہو جائے کہ یہ سَمْتِ کعبہ ہے، اُدھر نماز پڑھنا یقیناً صحیح ہے۔ اور اگر کہیں آدمی کے لیے سَمْتِ قبلہ کی تحقیق مشکل ہو، یا وہ کسی ایسی حالت میں ہو کہ قبلے کی طرف اپنی سَمْت قائم نہ رکھ سکتا ہو (مثلاً ریل یا کشتی میں ) تو جس طرف اسے قبلے کا گمان ہو، یا جس طرف رُخ کرنا اس کے لیے ممکن ہو، اسی طرف وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اگر دورانِ نماز میں صحیح سمت ِ قبلہ معلوم ہو جائے یا صحیح سَمْت کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہو جائے، تو نماز کی حالت ہی میں اس طرف پھر جانا چاہیے۔

یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلاء ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو  سچے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جائیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے، محض خدا کے پرستار تھے۔

 تحویل قبلہ کے بعد یہودیوں  کی  دشمنی مزید کھل کر سامنے آگئی اور انہوں نے اپنے طعن و تشنیع کے رہے سہے تیر بھی چلا ڈالے اور کہنے لگے کہ محمدؐ ہر وہ کام کرتا ہے جس میں ہماری مخالفت ہوتی ہے۔ نیز جو یہودی بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور اندر سے یہودی تھے،ان کی منافقت بھی کھل کر سامنے آگئی  کیونکہ انہوں نے کعبہ کی طرف منہ کرنے سے انکار کردیا۔

مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کے تین دشمن

مکہ مکرمہ میں آپؐ کے ساتھ دشمنی روا رکھنے والے صرف قریش مکہ ہی تھے لیکن مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کا مقابلہ تین طرح کے دشمنوں سے تھا۔یعنی منافقین، یہود اور اہل مکہ۔

منافقین۔مدینہ منورہ میں جو مشرکین آباد تھے وہ اکثر یہودیوں سے سنا کرتے تھے کہ ایک رسول آنے والا ہے، جب وہ آئے گا تو ہم دنیا پر چھا جائیں گے۔ ہمارے نبی نے ہمیں اس کی بشارت دی ہے۔مشرکین بھی ان لوگوں كی طرف سے كان پڑی بات پر سنجیدگی سے دھیان دے رہے تھے کہ ہم اس نبی کو دیکھیں۔چنانچہ جب آپؐ تشریف لائےتو مشرکین یعنی اوس و خزرج کے لوگوں نے آگے بڑھ کر نبوتِ محمدی کو دل و جان سے قبول کر لیا۔جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان کو تاریخ میں انصار کہا جاتا ہے اور جنہوں نے رشتہ داروں کو دکھانے کے لیے بظاہر اسلام قبول کیا، اندر سے مشرک ہی رہے، وہ منافقین ہیں اور یہ سب لوگ گھر کے بھیدی تھے جو مسلمانوں کے اندر رہ کر ہر آن انہیں  سخت نقصان پہنچاتے تھے۔

رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبَی

صحیح بخاری شریف کے باب التسلیم فی مجلس فیہ اخلاط من المسلمین والمشرکین کے ضمن میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی آمد  سے پہلے عبداللہ بن اُبَی کو رئیس یثرب بنایا جانا تھا،لیکن  پھرآمدِ رسول ﷺ کی وجہ سے اس کی تاج پوشی نہ ہو سکی۔وہ  اندر ہی اندر اس بات پر سخت کڑھتا رہا،وہ اور اس کے بہت سے ساتھی بظاہرمسلمان ہوگئے لیکن یہ سب لوگ مسلمانوں کے لیے کسی بھی بدترین عذاب سے کم نہ تھے۔

غزوۂ بدر سے پہلے کی بات ہے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ گدھے پر سوار ہو کر بنی الحارث، بنی خزرج کے محلے میں سعد بن عبادہ  رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے،آپ کے ساتھ اسامہ بن زید بھی سوار تھے۔راستے میں ایک جگہ بہت سے لوگ جمع تھے جن میں مسلمان، مشرک، بت پرست یہود وغیرہ شامل تھے۔ ان میں عبداللہ بن اُبَی اور عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔گدھے کے گزرنے سے غبار اٹھا تو عبداللہ بن اُبَی  اپنی چادر اپنی ناک پر ڈالتے ہوئے بولا، ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔آپ نے مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔گدھے سے اترے، لوگوں کو اللہ كے دین كی دعوت دی اور  قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کیں، اس پر عبداللہ بن اُبَی نے کہا: اے شخص! یہ جو کچھ تم کہتے ہو، یہ طریقہ مجھے پسند نہیں، اگر تمہاری بات سچ بھی ہے تو ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تنگ نہ کیا کرو اور جاؤ اپنے ٹھکانے پر، جو کوئی تمہارے پاس آئے اسے اپنے قصّے سناؤ۔عبداللہ بن رواحہ نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ ہمارے پاس تشریف رکھیں، ہمیں یہ بات بہت پسند ہے۔چنانچہ مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں کے درمیان شدید تلخ کلامی شروع ہو گئی، قریب تھا کہ خون خرابہ ہو جاتا، آپ نے لوگوں کو ٹھنڈا کیا۔اس کے بعد آپ سوار ہوئے اور انصار کے سردار سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے پہنچے۔آپؐ نے فرمایا:سعد کیا آپ نے سنا کہ ابو خباب یعنی عبداللہ بن اُبَی نے کیا کہا؟ سعد نے عرض کیا:یا رسول اللہ! اس سے درگزر فرمائیے، آپ پر اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام کی بارش کی ہے، اللہ نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، حالانکہ اس علاقے کے لوگوں نے اس کو سردار بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا، لیکن جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہمارا سردار بنایا تو اس سے برداشت نہ ہو سکا، اسی لیے اس نے یہ حرکت کی ہے۔([1])

بخاری شریف میں بیان ہونے والے اس واقع سے منافقین مدینہ کے رویے کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اُدھر قریش مکہ نے عبداللہ بن اُبَی کو سربراہ انصارقرار دیتے ہوئے خط لکھاکہ : تم نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اس سے ضرور لڑیں گے، تم اس  کو اپنے ہاں سے نکال دو یاہم تمہاری طرف فوج کشی کریں گے اور تمہیں قتل کرکے تمہاری عورتوں کے ساتھ جو چاہیں گے کریں گے۔

گویا اس بات کا  قریش کو بھی اندازہ تھا کہ یہ لوگ محمد ﷺکے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔

الغرض منافقین اپنی چالوں، ریشہ دوانیوں اور مکر و فریب سے مؤمنین کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے الگ مسجد بھی بنالی جسے (قرآن میں )مسجد ضرار کانام دیا گیا۔غزوہ احد سے تین سو کی تعداد میں یہ لوگ عین اس وقت لوٹ آئے جب جنگ کا آغاز ہونے والاتھا۔نیز یہی منافقین  یہود اور قریش مکہ کو مسلمانوں کے خلاف پل پل کی خبریں دیتے تھے۔یہ لوگ مسلسل سرگرم رہےیہاں تک کہ اسلام کی عظمت و شوکت اور فتوحات کے بعد خود بخود ختم ہو گئے۔

یہود مدینہ

مدینہ منورہ میں یہودیوں کا کاروباری منڈیوں اور مارکیٹوں پر قبضہ تھا۔(یہ لوگ)سودی کاروبار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔مدینہ کے اطراف میں یہود کے تینوں قبیلے بنو قینُقاع، بنو نَضیر اور بنو قُرَیظہ آباد تھے۔(ان یہودیوں نے)اوس و خزرج(قبیلوں) کو(آپس میں) لڑا لڑا کر بالکل ختم کر دیا تھا اور مدینہ پر اپنی دولت اور اقتصادی برتری کی وجہ سے قیادت کے حق دار بن بیٹھے تھے۔

آمد رسول ﷺ کے بعد مدینہ منورہ کی سیاسی، سماجی معاشرتی اور عسکری فضا بدل چکی تھی، آپ نے یہود کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدے کیے، ان کو پورے پورے حقوق دیے۔آپ  نے معاہدہ کیا تھا کہ ان کو مذہبی آزادی ہو گی۔آپ ان کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔الہامی مذہب کے پیرو   ہونے کے ناطے ان کو قریب کرنے کے لیے کوششیں فرماتے تھے، ان کے مذہب کا احترام کرتے، آپ  ان چیزوں میں جن میں کوئی خاص حکم الٰہی نازل نہیں ہوتا تھا، اہل کتاب کے مطابق فیصلہ دیتے تھے۔([2])

یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے تو آپؐ نے بھی رکھا، قرآن کریم میں بھی ان کی قربت کے اصول بیان ہونے لگے۔سورہ مائدہ میں ہے:

 وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ([3])

’’اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔‘‘ اور فرمایا:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔([4])

الغرض ہر قسم کی اہمیت اور توجہ کے باوجود یہودیوں نے مسلمانوں سے بدترین دشمنی کی۔آپ  کی ہجو کرتے، مسلمان خواتین پہ آوازے کستے، قریش مکہ کو حملہ کی دعوت دیتے، نومسلموں سے کہتے کہ ا س مذہب سے تو تمہارا شرک والا مذہب ہی اچھا تھا، خود اسلام قبول کرتے اور پھر مرتد ہو جاتے تاکہ دیگر لوگ بھی ایسا ہی کریں۔

پوری کوشش کے باوجود یہودی مسلمانوں کی طرف سے ہمدردانہ رویے کے باوجود  عداوت سے باز نہ آئے، بلکہ روز بروز دشمنی میں اضافہ ہی کرتےچلےگئے۔ہر موقع پر انہوں نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا، بالآخر معاہدے توڑنے کی بنا پر قریش مکہ سے تعاون کرنے اور عبداللہ بن اُبَی سے مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازشوں کی بنا پر آپ ؐنے یہودیوں کو مدینہ بدر کیا، یہودی  خیبر جا بسے پھر انہیں وہاں سے بھی نکالا گیااور اور آخر کارپورے جزیرۂ عرب سےنکال باہر کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا :

أخرجوا الیهود والنصاریٰ من جزیرۃ العرب([5])

’’یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے باہر نکال دو۔‘‘

ان کی انبیاء دشمنی، انسانیت دشمنی اور غیر یہودی کو جانوروں سے بدتر سمجھناان کی سرشت میں شامل ہے، جس پر  آج بھی وہ قائم ہیں اور آج بھی وہ سود خور ومہاجن بن کر دنیا کی معاشیات پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، مسلمانوں کے کشت و خون کے پیچھے ہمیشہ انہی کا ذہن اور مال و دولت کارفرما ہوتا ہے۔

قریشِ مکّہ

مدینہ میں نبی کریم ﷺ کے تیسرے دشمن وہی قریش ِمکہ تھے جن کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر آپ ساتھیوں سمیت مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے، لیکن یہاں آمد کے بعد بھی وہ لوگ چین سے نہیں بیٹھے۔

مدینہ منورہ میں آپؐ نے انصار، مشرکین اور یہود سے مل کر ایک حکومت قائم کی تاکہ سب  مل کر بیرونی دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔

ادھر قریش ِمکہ نے رئیس المنافقین اور یہود کو پیغامات بھیجے کہ ہمارے مجرم کو پناہ مت دو ورنہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیں گے۔ اسی لیے آپ مدینہ منورہ میں اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھتے تھے بلکہ دفاع کی ہر صورت اختیار کرتے تھے۔

عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم في أول ما قدم المدينة يسهر من الليل فقال ليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة فبينما نحن كذلك إذ سمعنا صوت السلاح قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من هذا قال أنا سعد جئت أحرسك قالت ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔([6])

(آپؐ شروع شروع میں مدینہ منورہ میں راتیں جاگ کر گزارا کرتے تھے اور فرماتے کاش! کوئی نیک آدمی رات کو پہرہ دیتا۔ ایك مرتبہ ہم اسی حال میں تھے كہ كسی اسلحہ بردار كی آواز سنائی دی، آپ نے فرمایا: یہ كون ہے؟ آواز آئی میں سعد ہوں، آپ كی حفاظت كے لیے حاضر ہوا ہوں، حضرت عائشہ (راوی حدیث )كہتی ہیں تب جاكر آپ نے آرام فرمایا۔)

حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں :

کانوا لا یبیتون الا بالسلاح ولا یصبحون الا فیہ([7])

(انصار ان کی حفاظت کے لیے ہتھیار بند ہو کر رات گزارتے تھے اور اسی طرح صبح ہو جاتی تھی)۔

قریشِ مکہ ۵۰۰ میل دور سے آ کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو یہاں سکون سے نہیں رہنے دیتے تھے۔نبی کریم ﷺ کو سارے معاملے کا ادراک تھا۔(اس عرصہ میں) آپؐ  نےاپنی حفاظت اور دشمن پر نظر رکھنے کے لیے وفود بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مکہ مکرمہ تمام مذاہب کا مرکز تھا۔ ہر شخص کو بیت اللہ میں جانے کی اجازت تھی لیکن مسلمانوں کو اس سے روک دیا گیا تھا۔قریشِ مکہ اپنی دشمنی میں اس قدر بڑھ گئے تھے کہ آپ ؐکے مہاجر صحابہ جو خود مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے ان کو مکہ جانے کی اجازت نہ دیتے تھے۔

کفار ِقریش اپنی دشمنی کو ختم کرنے کی بجائے مسلمانوں کی اس نئی پناہ گاہ کو بھی تباہ کرنا چاہتے تھے۔

مکہ کا ایک رئیس کرز بن جابر فہری مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی چراہ گاہ پر حملہ آور ہوا اور تمام مویشی لے کر بھاگ گیا۔

کفار قریش کی طرف سے مدینہ کے اندر آ کر حملہ کرنا ایک بڑی جسارت تھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ مستقبل میں ان کے ارادے کیا ہیں۔

جب مدینہ منورہ میں مسلمان کسی قدر قریش کے ظلم و ستم سے محفوظ ہوئے تو مکہ میں دشمنان اسلام كو ان كا چین اور آرام سے رہنا پسند نہ آیا۔ابو جہل نے تمام قبائل سے مشاورت شروع کر دی کہ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے بلکہ ان صابیوں(بے دینوں) کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔

چنانچہ حضرت سعد بن معاذ جو قبیلہ اوس كے سربراہ تھے،اسی دوران عمرہ اداکرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔اس لیے کہ قریش مکہ کی اصل دشمنی تو اپنے قریشی مسلمان بھائیوں سے تھی جو مکہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔حضرت سعد اور امیہ بن خلف کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔وہ اُسی کے مہمان ہوئے۔جب یہ  دونوں طوافِ کعبہ کے لیے نکلے تو ابو جہل سے آمنا سامنا ہو گیا، اس نے امیہ سے پوچھا، یہ شخص کون ہے؟امیہ نے کہا سعد مدینہ سے آئے ہیں۔ابو جہل نے کہا تم لوگ صابیوں([8]) کو پناہ دیتے ہو، اور سعد سے كہنے لگا:میں یہ کبھی نہیں دیکھ سکتا کہ تم کعبہ میں آؤ۔آج اگر تم امیہ کی پناہ میں نہ ہوتے تو کبھی بچ کر واپس نہ جاتے۔اس  پر حضرت سعد نے کہا: اگر تم ہمیں حج سے روکو گے تو ہم تمہارا مدینہ کا راستہ روک دیں گے۔([9])

ان واقعات سے قریشِ مکہ کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کس طرح کا سلوک کرنا چاہتے تھے۔یہ دشمنی کم نہ ہوئی تھی بلکہ روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ قریش یہود ِمدینہ اور منافقین سے ساز باز کر کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔قریش اپنے دور کے جنگجو ترین لوگوں میں سے تھے۔تلوار بازی ان کا مشغلہ تھا، لوٹ کھسوٹ، ڈاکے ڈالنا، قافلے لوٹنا، دشمن پرشب خون مارنا ان کو وراثت میں ملا تھا۔اب یہ سب کچھ وہ مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتے تھے۔

الغرض نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ میں ایک دشمن سے برسر پیکار تھے جب کہ مدینہ منورہ پہنچ کر ایک نوزائیدہ مملکت میں آپ کو مختلف طبائع كےتین دشمنوں سے بیك وقت واسطہ پڑ گیا۔

یہودی معاشی طور پر مضبوط تھے اور بلا کے سازشی بھی، منافقین گھر کے بھیدی تھے اور اندر کی باتیں ان سے پوشیدہ رکھنا انتہائی مشکل کام تھا۔قریش مکہ تلوار کےدھنی تھے اور قتال و جنگ میں اپنا لوہا منواتے تھے۔

اِذن جہاد

مسلمان مکہ مکرمہ میں مال و اسباب کے لحاظ سے بھی کمزور تھے اور عددی اعتبار سے بھی بہت کم تھے، چنانچہ پوری مکی زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صبر و استقامت ہی کا حکم دیا۔

جب تمام صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے نکل گئے، بعض قبا اور دیگر مدینہ منورہ منتقل ہو گئے، ادھر (معاذ اللہ) آپ  کے قتل کا فیصلہ کر لیا گیا تو آپ  بھی عازمِ مدینہ ہوئے۔مدینہ منورہ اب مسلمانوں کا مرکز بن چکا تھا، یہ ایک مضبوط پناہ گاہ تھی۔مسلمانوں کی مدینہ آمد کے بعد اب انہیں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا۔ سب سے پہلے یہ اجازت دی گئی کہ جن لوگوں کو مارا جائے ان کو جواب دینے کی اجازت ہے کیوں کہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ([10])

ان لوگوں کو جن کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے، انہیں(جواب دینے کی) اجازت دے دی گئی کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا، بے شک اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔

یہ جہا د کے بارے میں تدریجی احکامات کا آغاز تھا۔ اس کے بعد صریح الفاظ میں ان لوگوں سے لڑنے اور جنگ کرنے کا حکم دیا گیا جو مسلمانوں سے آ کر لڑیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ([11])

ان لوگوں سے فی سبیل اللہ لڑائی کرو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں۔

یہ جہاد کا دوسرا مرحلہ تھا جب جنگ تھونپنے  والوں سے جنگ کا واضح حکم دیا گیا اور یہ دفاعی جنگ کا حکم تھا کہ جو کوئی آ کر آپ سے لڑے، اس کا جواب دو۔

اجازتِ جنگ کا تیسرا مرحلہ یہ تھا کہ ارشاد ہوا: مشرکوں سے اسی طرح اکٹھے ہو کر لڑو جیسے وہ تم سے اکٹھے ہو  کر لڑتے ہیں۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَا۬فَّةً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَا۬فَّةً ([12])

تم مشرکین سے لڑو جیسا کہ وہ تم سے اکٹھے ہو کر لڑتے ہیں۔

چنانچہ مدینہ منورہ میں ایک سال گزرنے کے بعد تیغ و سناں سے اس دین کی حفاظت ہونے لگی۔ دین اسلام اخلاق کردار اور اعلیٰ صفات کی حامل شخصیات کا مرہونِ منت تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے اپنے اعلیٰ کردار سے دشمنوں کے دلوں کو فتح کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دین اور مسلمانوں کی حفاظت کا سہرا تلوار ہی کے سر ہے اور تیر و تلوار نے پوری مدنی زندگی میں نبی کریم ﷺ کو ایک مجاہد کمانڈر، نڈر سپہ سالاراور دشمن کے لیے فولاد بنائے رکھا۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مدنی زندگی کا نمایاں کام صرف اور صرف اسلام اور اہل اسلام کی حفاظت تھا۔سیرت نگاروں نے سیکٹروں صفحات غزوات کے نام کر دیے۔جنگوں کے حالات لکھنے والوں نے کتابوں کے نام ہی مغازی رکھ دیے، تاریخ نگاروں نے نبی کریم ﷺ کی مدنی زندگی کو تیغ وتفنگ کے نام سے منسوب کردیا۔اہل حدیث نے اپنی کتابوں میں کتاب  الجہاد اور باب القتال کے نام سے بے شمار احادیث جمع کر ڈالیں، اہل فقہ نے اسلام کے قانون جنگ پر سیکٹروں صفحات بھر دیے، اس پر مستزاد یہ کہ  دورِ حاضر کے مستشرقین اور یہود و نصاریٰ کے ہم نوا نام نہاد مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کو تلوار کا دھنی گردانا اور آج وہ  آپؐ  کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں(نعوذ باللہ)۔قرآن کریم آپ کو رحمۃ للعالمین کہتا ہے۔پوری مدنی زندگی میں آپ نے علمِ جہاد سر بلند رکھا کیونکہ جہاد اگر قرآن و سنت کے مطابق ہو تو وہ عین رحمت ہے۔جہاد کے ذریعے سے مظلوم کی مدد کی جاتی ہے، ظالم کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، حق دار کو اس کا حق دلایا جاتا ہے، لڑنے والے سے لڑا جاتا ہے، جو ہتھیار ڈال دے اس سے تعرض  نہیں کیا جاتا، جو معاہدہ کر لے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔

[1]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۵۸۹۹۔

[2]           صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۵۵۸۔

[3]           سورة المائدة:5۔

[4]           سورہ آل عمران: ۶۴۔

[5]           دیکھیے، ابو بکر البزاز، مسند البزاز، مسند عمر بن الخطاب حدیث:۲۳۰، اور صحیح مسلم :حدیث نمبر۳۳۱۳۔

2           النسائی، السنن، حدیث نمبر:۸۲۱۷

[7]           الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، تفسیر سورۃ النور، حدیث نمبر:۳۵۱۲۔

[8]           قریشِ  مكہ اپنے آپ كو حق پر سمجھتے تھے اور جو شخص كسی نئے مذہب كو اختیار كرتا اسے صابی كہتے تھے ان كے نزیك اس كا مطلب تھا : بے دین ہونا۔

[9]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۹۵۰۔

[10]         سورۃ الحج:۳۹۔

[11]         سورۃ البقرة: ۱۹۰۔

[12]         سورۃ التوبہ:۳۶۔

Post a Comment

0 Comments