سيرت طيبه مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے پالیسی خطاب ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 


مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے پالیسی خطاب

 نبی کریم ﷺکی آمد کے ساتھ ہی دعوتی سرگرمیوں میں تیزی آگئی تھی اور مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلے پہلے مدینہ کے گھر گھر میں جاں نثارانِ رسولؐ پیدا ہوچکے تھے۔ ہر قبیلہ میں اسلامی معاشرہ کے سرگرم کارکنان چاک و چوبند اور سرگرم تھے۔ قبیلہ حطمہ، واقف، وائل اور امیہ کے گھرانوں میں شرک کی تاریکی باقی رہ گئی تھی جن کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ معاشرہ کی تشکیل کے لیے نبی کریم ﷺنے جوپہلا اجتماعی خطبہ دیا اس کا لفظ لفظ اور جملہ جملہ دستورِ اسلام اور آئندہ بننے والی اسلامی ریاست کے لیے واضح ہدایت کا سرچشمہ ہے۔آپؐ نے اجتماعی دعوت دیتے ہوئے انتہائی جامع اور مختصر انداز میں تشکیلِ نو پانے والے معاشرے کے حقوق و فرائض کی وضاحت، حمد و ثنا کے بعد ان الفاظ میں کی:

أما بعد أيها الناس فقدموا لأنفسكم تعلمن والله ليصعقن أحدكم ثم ليدعن غنمه ليس لها راع ثم ليقولن له ربه وليس له ترجمان ولا حاجب يحجبه دونه ألم يأتك رسولي فبلغك وآتيتك مالا وأفضلت عليك فما قدمت لنفسك فلينظرن يمينا وشمالا فلا يرى شيئا ثم لينظرن قدامه فلا يرى غير جهنم فمن استطاع أن يقي وجهه من النار ولو بشق من تمرة فليفعل ومن لم يجد فبكلمة طيبة فإن بها تجزى الحسنة عشر أمثالها إلى سبع مئة ضعف والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ([1])

’’لوگو! اپنی جانوں کے لیے وقت پر کچھ کمائی کرلو، خوب جان لو، اللہ کی قسم تم میں سے ہر ایک پر موت وارد ہوگی اور وہ اپنے گلے کو اس حال میں چھوڑ کر رخصت ہوگا کہ کوئی اس کا چرواہا نہ رہے گا۔ پھر اسے اس کے پروردگار کی طرف سے ایسے عالم میں خطاب کیا جائے گا جب کہ بیچ میں کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ کہا جائے گا کہ کیا تجھ تک میرا  رسول نہیں پہنچا تھا جس نے بات تجھے پہنچائی ہو، پھر کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا، اور تجھ پر نوازش نہیں کی تھی؟ تو پھر اپنی جان کے لیے تو نے کیا آگے بھیجا؟ پس وہ دیکھے گا دائیں بائیں، لیکن کچھ نہ دکھائی دے گا۔ پھر سامنے کی طرف نگاہ ڈالے گا، مگر جہنم کے سوا  کچھ سامنے نہ ہو گا۔ سو جس کو بھی توفیق ہو کہ کھجور كے ایك ٹكڑے  کے عوض ہی اپنے چہرے کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے کچھ کرے۔ جو اتنا بھی نہ کرسکے وہ کوئی بھلی بات کہہ کر ہی بچاؤ کرے کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔‘‘

ابن ہشام نے ابن اسحاق سے دوسرا خطابِ عام یوں نقل كیا ہے:

إن الحمد لله أحمده وأستعينه نعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له إن أحسن الحديث كتاب الله تبارك وتعالى قد أفلح من زينه الله في قلبه وأدخله في الإسلام بعد الكفر واختاره على ما سواه من أحاديث الناس إنه أحسن الحديث وأبلغه أحبوا ما أحب الله أحبوا الله من كل قلوبكم ولا تملوا كلام الله وذكره ولا تقس عنه قلوبكم فإنه من كل ما يخلق الله يختار ويصطفي وقد سماه الله خيرته من الأعمال ومصطفاه من العباد والصالح من الحديث ومن كل ما اوتي الناس الحلال والحرام فاعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا واتقوه حق تقاته وأصدقوا الله صالح ما تقولون بأفواهكم وتحابوا بروح الله بينكم إن الله يغضب أن ينكس عهده والسلام عليكم([2])

’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ میں اسی کی حمد کرتا ہوں، اسی سے مدد چاہتا ہوں، ہم سب اپنے دلوں کی شرارتوں اور اپنا اعمال کی خرابیوں کے مقابلے میں اللہ ہی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ ہدایت سے محروم کر دے اس کے لیے کوئی رہنما نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور قابلِ عبادت و طاعت ہستی نہیں، وة ایک ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا حصہ دار نہیں، بلاشبہ بہترین بیان اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب ہے۔ اس شخص نے فلاح پائی  جس كے دل میں اللہ نے اس كی محبت ڈال دی، اور جسے کفر کے بعد اسلام میں داخل کیا اور جس نے اور سارے انسانی كلاموں کے مقابلے میں اس كلام كو اپنے لیے پسند کر لیا۔ یہ بہترین كلام ہے اور سب سے زیادہ مؤثر۔ تم وہی کچھ پسند کرو جو اللہ کو پسند ہے اور اللہ سے اخلاص کے ساتھ محبت کرو۔ اللہ کے کام سے غفلت نہ برتو اور تمہارے دل اس کے لیے سخت نہ ہونے پائیں۔ چونکہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس میں سے بہتر کو چھانٹتا اور منتخب کرتا ہے، سو اس نے اعمال میں سے بہترین، اور بندوں میں سے برگزیدہ ترین، اور كلاموں  میں سے پاکیزہ ترین کو متعین فرما دیا ہے۔ نیز انسانوں کو جو کچھ دیاگیا ہے اس سب میں سے کچھ حلال ہے، کچھ حرام۔ پس اللہ کی غلامی اختیار کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ كرو۔  اس کے غضب سے اس طرح بچو جیسا کہ بچنے کا حق ہے اور اللہ کے حضورمیں وہ سارے پاکیزہ اقوال سچ کر دکھاؤ جن کو تم اپنی زبانوں سے ادا کرتے ہو۔ اور اللہ کی رحمت کے ذریعے سے ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ استوار کرو۔ اگر اللہ  کے ساتھ كیے ہوئے (ایمان کے) عہد کو توڑا جائے تو وہ ناراض ہوتاہے، اور تم پر سلامتی ہو۔‘‘

اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے یہ بنیادی خدو خال ہیں جو اس اساسی خطبہ میں بیان ہوئے اور انہی تعلیمات کی روشنی میں مستقبل کی تمام تر منصوبہ بندی عمل میں آئی۔

آغاز ہجرت پر بعض صحابہؓ کی مشکلات

ہجرت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عقائد اور نظریات جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں چنانچہ ہجرت کرنے والوں نے اللہ اور رسول ﷺ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھر بار، مال و دولت، اہلِ خانہ اور دوست احباب کو چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں دارالہجرت کی طرف کوچ کیا۔

 حضرت صہیبؓ رومیَ مشہور صحابیِ رسول ہیں۔ وہ اہل مکہ میں سے نہیں تھے۔ انھوں نے مکہ میں اقامت اختیار کرلی تھی اور یہیں کام کاج اور کاروبار کیا۔ جب ہجرت کا موقع آیا تو قریش نے کہا، تم نے سارا مال و اسباب یہاں سے کمایا ہے اس لیے ہم اسے تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ انھوں نے بھرپور شانِ استغناء سے مال ان کے آگے پھینک دیا اور بے سروسامانی کے عالم میں مکہ کو خیر باد کہہ گئے۔ جب نبی کریمﷺ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا ’’صہیب نے یقیناًمنافع بخش تجارت کی ہے۔‘‘

اسی طرح قریش نے حضرت  ابو سلمہؓ کے راستے میں روڑے اٹکانے کے لیے بوقت ہجرت ان کی زوجہ محترمہ اورننھے منے بچے کو روک لیا کہ اسے ہم ساتھ نہیں جانیں دیں گے، لیکن وہ اس  آزمائش میں بھی  ثابت قدم رہے اور غمگساربیوی اور آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹے کو چھوڑ کر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ تقریباً ایک سال تک روزانہ اُم سلمہؓ مکہ سے باہر وادی بطح نکل جاتیں اور روتے ہوئے سارا دن مدینہ کا راستہ دیکھتی رہتیں اور شام کو واپس آجاتیں۔ ظلم کی حد یہ کہ ابو سلمہ کے قبیلے والوں نے ام سلمہؓ سے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی یہ کہہ کر چھین لی کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے، والد چلاگیا ہے توبچہ ہمارے پاس رہے گا۔ اس طرح ام سلمہؓ نے انتہائی کرب میں شوہر اور بیٹے کی جدائی میں پورا سال گزار دیا۔ ایک سال تک اذیت کا طویل دورانیہ گزارنے کے بعد بعض خدا ترس لوگوں نے معاملہ کا حل نکالا۔ بچہ انھیں مل گیا اور وہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئیں۔

 ان واقعات سے اندازہ ہوتاہے کہ ہجرت کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا اور نہ آج کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر میں آرام دہ گاڑیوں پر بیٹھ کر چلے جانے کا نام تھا، بلکہ وہاں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقیدہ ٔ توحید پر ایمان لانے والوں کا نہایت کڑا  امتحان لیا کہ اس میں وہی پاک ہستیاں کامیاب ہو سکتی تھیں۔  

ہجرت کے بعد سرزمین مدینہ پردور رس اثرات

 اسلام کا اعلان تھا کہ وہ ایک مکمل دستورِ حیات ہے اور اس کی روشنی میں عقائد، عبادات اور زندگی کے تمام تر معاملات کی تنظیم نو کی جائے۔ اس پیغام پر عمل درآمد کے لیے ایک علیحدہ خطۂ زمین اور ایک امت کی ضرورت تھی جہاں قرآن وسنت کے قوانین نافذ کیے جائیں، ان قوانین کی مدد سے ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس ریاست میں انسانی تاریخ کا بہترین معاشرہ ابھر کر سامنے آئے اور یہ مکمل معاشرہ تاقیامت بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ہجرت کا مدینہ پر بڑا اثر یہ ہوا کہ یہاں کی سیاست کا نقشہ یکسر بدل گیا۔ پہلے یہودیوں کا سکہ چلتا تھا۔ مذہبی عہدوں پر انھی کے احبار قابض تھے جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے تھے۔ تجارتی لحاظ سے بھی ان کا کنٹرول تھا۔ اوس و خزرج کی لڑائیاں عروج پر تھیں۔ شرک و بت پرستی عام تھی۔ اسلام کی آمد کے بعد یہاں حالات بد لنا شروع ہو گئے۔ مکہ اور دیگر شہروں سے آنے والے مہاجرین کی کثرت سے وہاں کی معاشرت پر گہرے اثرات مرتب ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ مسلمان اپنی حیثیت منوانے لگے۔ اس طرح مدنی معاشرے میں ایک تنوع پیدا ہوگیا۔ اب اس شہر کی سابقہ آبادی میں نئے عناصر شامل ہوچکے تھے۔ اس معاشرے کا اجتماعی ڈھانچہ دینی عقائد اور محکم اصولوں کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا جاچکا تھا۔ قبائلی نظام کی جگہ جدید معاشرتی نظام نے لے لی تھی۔ قبیلہ کے تصور کی جگہ امت کا تصور ابھر کر سامنے آچکا تھا۔ کوئی شخص کسی بھی قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو جب وہ اسلام قبول کر لیتا تو اسلامی جماعت کا ایک اہم رکن بن جاتا تھا۔ مدینہ کی آبادی کی تقسیم عقائد اور اصولوں کی بنیاد پر ہو چکی تھی اور کل آبادی  بجائے قبیلوں کے، تین گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، مومن، منافق اور یہود۔مسلمان جہاں بھی تھے انھیں حکم دیاگیا  کہ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اس طرح مدینہ میں مسلمانوں کی آبادی روز بروز تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی اور یوں دیگر گروہوں کے مقابلے میں ان کی قوت و عظمت میں اضافہ ہوگیا۔ ادھر جو حضرات ہجرت کرکے مدینہ آتے انھیں یہاں مکمل اسلامی ماحول ملتا۔ رہن سہن، کھانا پینا، رسم و رواج، عبادات، معاملات، عدالتی نظام، تعلیم و تربیت، مسائل کے حل، تجارت، زراعت الغرض ہر میدان اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، یہ سب کچھ کسی اور جگہ میسر نہ تھا،سوائے ان قبائل کے کہ جنھیں نبی کریم  ﷺنے اپنی ہی جگہوں پر رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ وہ قبائل تھے جو پورے کے پورے مسلمان ہوچکے تھے اور وہاں بذات خود ایک مکمل معاشرہ تشکیل پاچکا تھا جیسے قبیلہ مزنیہ، خزاعہ اور یمن کے بعض قبائل۔

 ہجرت نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اسلام میں فضیلت کا معیار تقویٰ ہے نہ کہ قبائلی تعصب یا خاندانی حسب و نسب یا علاقائی امارت۔ امت کا جو تصور مدنی معاشرے نے دیا اس کی مثال دنیا کے کسی بھی نظام میں نہیں ملتی جہاں ہر کالا گورا، پستہ قد، دراز قد، مکی، مدنی، نجدی، عراقی، یمنی، ہر قسم کی علاقائی عصبیت سے بالاتر ہو کر امت کے افراد کی طرح رہ رہے تھے اور ہر کسی کو امت کا ایک ذمہ دار فرد سمجھا جاتا تھا۔ اس سے قبل عرب میں لسانی، قبائلی، علاقائی اور نسبی تعصب عروج پر تھا لیکن ہجرت کے گہرے اور دور رس اثرات نے تمام جاہلانہ تعصبات و فلسفات کا قلع قمع کردیا۔

ہجرت کے نتائج

 ۱:قبل از ہجرت مکہ میں اسلامی تعلیمات کی نوعیت زیادہ تر نظری اور فکری تھی۔ وہاں وہ اپنے تصورات کو کھل کر عملی جامہ نہ پہنا سکے تھے، نہ وہ دنیا کو پورے طور پر  دکھا سکتے تھے کہ وہ دراصل کس قسم کے لوگ ہیں اور کس قسم کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اب وہ اس قابل ہوگئے تھے کہ حقیقت کی دنیا میں تجرباتی طور پر سب کو دکھا سکیں کہ وہ کیسے اور کس طرح کے افرد تیار کرنا چاہتے ہیں، انسانوں کی کس قسم کی تربیت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کس قسم کا نظامِ تعلیم و تربیت درکار ہے۔         

۲: ہجرت درحقیقت اسلامی شعائر کے احیاء، ارتقاء اور تکمیل کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئی۔ اس کے بغیر اسلامی شعائر اور عقائد کا تکمیلی شکل میں نظر آنا ممکن نہ تھا۔

۳: قبل از ہجرت کا زمانہ، نسلی مفادات، لسانی برتری اور تفوق یا علاقائی نظریات و تصورات کا زمانہ تھا۔ لیکن ہجرت نے ثابت کر دیا کہ اس امت کے نظریات بین الاقوامی، بین الانسانی اور عالمگیر ہیں۔ اب پچھلا دور ختم ہوگیا ہے اور حقیقی عالمگیریت  اس امت کی صورت میں اب ظاہر ہورہی ہے۔ آج کل کی مغربی عالمگیریت اور مدنی تعلیمات کی عالمگیریت میں فرق سیرت نبوی کے مطالعہ کے بعد سامنے آتا ہے۔ مدنی دور کی عالمگیریت میں قوتِ اخلاق و کردار، عدل و انصاف، الٰہی تعلیمات، باہمی ہمدردی،  تمام تر مادی علائق اور تعصبات سے بالاتر تھے۔ لیکن آج کی عالمگیریت، مادی ترقی، علاقائی تعصب، رنگ و نسل کی فوقیت اور باطل نظریات کو ٹھونسنے سے عبارت ہے۔

۴: چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ہجرت کے بعد قائم ہونے والی ریاست نے ثابت کر دیا کہ تنگ نظریات اور مفادات کی بنیاد پر ریاستیں اور بادشاہیاں کیا ہوتی ہیں اور اصولوں اور خدائی احکام پرقائم ہونے والی ریاست کیسی ہوتی ہے۔

۵: ہجرت کاایک انتہائی بڑا اور اہم نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ ایک کثیر الطبقاتی (Cosmopolitan)  شہر بن گیا جہاں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف علاقائی پس منظر رکھنے والے باشندے بڑی تعداد میں نظر آنے لگے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ سے علاقائی اور قبائلی رنگ ختم ہوگیا اور اسلامی عالمگیریت کے مظاہر نظر آنے لگے۔ اسی مدینہ کو مرکز بنا کر لوگ یہاں سے دعوتِ دین دینے کے لیے مختلف علاقوں میں پھیلنے لگے خصوصاً جن علاقوں سے لوگ آئے تھے انہی علاقوں میں بطور داعی جانا شروع ہوگئے۔ اس کے علاوہ بعض حضرات تجارتی مقاصد کے لیے بھی باہر جاتے اور ساتھ ساتھ دین کا پیغام بھی دیتے۔

ابتدائے اذان

بہت جلد مسلمانوں کو  احساس ہوا کہ کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے سب کو معلوم ہوجائے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ بعض نے کہا عیسائیوں کی طرح ناقوس بجانا چاہئے،بعض کی رائے تھی یہودیوں کی طر ح سینگھ (بوق) میں آواز   لگائی جائے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ  نے کہا کیوں نہ کسی آدمی کو بھیجیں جو نماز کے لیے آواز لگائے۔ یہ تجویز نبی کریمﷺ  کو پسند آئی جب کہ ترمذی شریف ہی کی ایک روایت ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان سنی جو انہیں یاد ہوگئی۔صبح جب وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنا خواب سنایا جس پر آپ  نے فرمایا:

إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٍّ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَإِنَّهُ أَنْدَى وَأَمَدُّ صَوْتًا مِنْكَ، فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَكَ، وَلْيُنَادِ بِذَلِكَ

بےشک یہ سچا خواب ہے۔ آپ بلال کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، ان کی آواز آپ سے بلند اورسانس لمبی ہے، انہیں وہ الفاظ بتاتے جائیں جو آپ کو خواب میں بتائے گئے ہیں، وہ انہیں پکاریں گے۔

 راوی کہتے ہیں کہ جب عمرؓ کے کانوں میں  اذان کی آواز پڑی تو دوڑے ہوئے نبی کریمﷺ کی خدمت میں پہنچے، اس حال میں کہ چادر پیچھے گھسٹ رہی تھی اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، جو کچھ بلال نے کہا میں خواب میں دیکھ چکا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’الحمدللہ  میں نے درست فیصلہ کیا۔‘‘([3])

باب بدء الاذان کے عنوان کے تحت بخاری مسلم اور نسائی نے بھی احادیث بیان کی ہیں۔ حضرت عمؓر کی رائے کے مطابق اعلان کرنے کا حکم دیا گیا اور الصلوٰۃ  جامعہ کہہ کر پکارا گیا۔اس سلسلے میں خود نبی کریمﷺ نے خواب میں اور حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن زید اور دیگر صحابہ نے مروجہ الفاظ کے ساتھ اذان کے الفاظ اور طریقۂ  ٔ کار دیکھا۔ سیرت کی کتابوں میں اس کی مزید  تفصیلات بھی بیان ہوئی ہیں۔ ([4])

 اسلامی حكومت كے قیام اور اسلامی معاشرے كی تشكیل كے لیے سیاسی معاہدے

ہجرت کی  اجازت ملنےکے بعد مسلمان جو ق در جوق مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ ہجرت کا لغوی معنی ہے ’’چھوڑنا‘‘ چنانچہ مسلمان اپنے گھر بار، مال اسباب تجارت، کاروبار حتیٰ کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہوا تھا تو وہ بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ روانہ ہوگئے۔  اسی طرح اولاد نے و الدین کو چھوڑا، والدین نے اولاد کو چھوڑا اور برادریاں منقسم ہوگئیں۔ اس لحاظ سے ہجرت کرنےو الوں نے خالی ہاتھ ہجرت کی تھی۔ ان کی گزر بسر کے لیے آگے بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ مسلمانوں کی  قلیل تعداد مدینہ میں تھی جو انصار کہلاتے تھے باقی سب یہودی اور مشرک تھے۔

نبی کریمﷺنے تمام مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دی تو نہ صرف مکہ سے بلکہ گردو نواح کے دیگر قبائل کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے،  وہ بھی مدینہ روانہ  ہوگئے، یوں مدینہ منورہ  میں عددی لحاظ سے مسلمانوں  کی اکثریت  ہوگئی  جن میں مختلف قبائل اور علاقوں کے مسلمان شامل تھے۔ اب اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ مختلف  الانواع طبائع کے مسلمان آپس میں باہم شیرو شکر ہوکر رہیں گے بھی یا نہیں، دوسرا یہ کہ نئے آنے والے مہاجرین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مدینہ میں رہنے والوں کے لیے ضروری تھا۔ انصار ِمدینہ نے جس ایثار، ہمدردی اور محبت کا ثبوت دیا، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے مواخات کے نام سے صحابہ کرام ؓ  کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔

اہل مکہ تجارت پیشہ تھے جب کہ مدینہ میں زیادہ تر کھیتی باڑی کا رواج تھا اور انصار کے پاس زمینیں تھیں۔ مہاجرین  کھیتی باڑی  کرنا جانتے ہی نہ تھے اورتجارت کے لیے سرمایہ درکار تھا جو ان کے پاس نہیں تھا۔  اس لحاظ سے مدینہ منورہ میں مہاجرین پریشان ہونے لگے،وطن کی محبت بھی ستاتی تھی، پھر مدینہ میں مہاجرین کو ایک وبا نے آلیا  اس پر نبی ﷺ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری  کوجُحفہ  منتقل فرمادے۔ رسول اللہﷺ نے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ  ہمارے دلوں میں  مدینہ کی محبت اسی طرح ڈال دے جیسے ہمیں مکہ محبوب ہے بلکہ مدینہ  کو زیادہ محبوب بنادے۔ قبول دعا کے نتیجے میں رسول اللہﷺ اور مہاجرین کو مدینہ سے اس قدر پیار ہوگیا کہ جب سات آٹھ سال بعد مکہ فتح ہوگیا، مکہ والے مسلمان ہوگئے، دشمنیاں ختم ہوگئیں  بیت اللہ شریف مسلمانوں کے پاس آگیا مگر اس کے باوجود مہاجرین مدینہ چھوڑ کر مکہ نہ گئے  بلکہ سب وہیں  کے ہوکر رہ گئے۔

تعمیر مسجد کے کام سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ نے انصار کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب لوگ آگئے تو آپؐ نے ایک ایک مہاجر  کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا کر دونوں کو سگے بھائیوں جیسے حقوق وفرائض کا حکم دیا۔ حکم سننا تھا کہ اس پر عمل شروع ہوگیا۔ اس وقت تک پینتالیس یا پچاس مہاجرین مدینہ میں تھے جن کی کفالت ضروری تھی۔

ہر انصاری اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گیا، گھر کے سارے سامان کا جائزہ لیا اور ہر چیز آدھی آدھی کرکے اپنے بھائی کے لیے  رکھ چھوڑی۔([5])

مہاجرین  اور انصار کا رشتہ بالکل حقیقی رشتہ بن گیا۔جب کسی انصاری کی وفات ہوتی تواس کا  مالِ وراثت اس مہاجر بھائی میں بھی تقسیم ہوتا تھا۔ قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ([6])

’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، اور وہ لوگ جنہوں نے ان کو ٹھکانا دیا اور ان کی امداد کی، یہ لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘

کتبِ سیرت میں ان صحابہ کرام کے نام اور تفصیل بیان ہوئی ہے جن کے درمیان مؤاخات قائم ہوئی۔([7])

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ مؤاخات کا بنیادی مقصد مہاجرین  کی امداد، حوصلہ افزائی اور مدینہ میں ان کے لیے ٹھکانہ مہیا کرنا تھا نیز یہ کہ مقامی اور مہاجر  کی بھائی بندی سے ان کے درمیان انس و محبت بڑھے، باہم شیرو شکر ہوں، کوئی جاہلانہ تعصب  نہ اٹھنے پائے۔ لیکن بعض روایات میں آتا ہے کہ مکہ میں مہاجرین کے درمیان بھی آپس میں مؤاخات قائم ہوئی تھی جیسے حضرت حمزہ اور زید بن حارثہ کے درمیان، حضرت علیؓ  کو خود نبی کریم ﷺنے اپنا بھائی بنایا، حضرت زبیر  اور ابن مسعودؓ  وغیرہ کے درمیان۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ میں مہاجرین کے درمیان آپس میں مؤاخات قائم کی ا  ور مہاجرین اور انصار  کے درمیان ایک الگ مؤاخات  قائم کی۔یہ  مؤاخات  باہمی ہمدردی  عمگساری، پیار اور محبت کی بنیاد پر قائم کی گئی اور یہ بھی فیصلہ فرمایاکہ یہ دونوں بھائی موت کے بعد ایک دوسرے کے مال کے بھی وارث ہوں گے۔([8])



[1]           سیرة ابن ہشام:3/30۔

 

[2]           ایضاً:3/30۔

 

[3]           سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۱۸۹۔

[4]           سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۱۸۹ یہاں سنن ترمذی كی روایت بیان كی گئی ہے جب كہ حدیث اور سیرت كی كتابوں میں اس كی مزید تفصیلات ملتی ہیں۔

[5]           صحیح البخاری، حدیث نمبر:۴۵۸۰۔

[6]           سورة الانفال: ۷۲۔

[7]           سیرة ابن ہشام: ۲/ ۱۷۲۔ ۱۷۳

[8]           طبقات ابن سعد:1/ ۲۳۸

Post a Comment

0 Comments