سيرت طيبه قریش کا ردِّعمل ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




قریش کا ردِّعمل

جس رات بیعتِ عَقَبَہ واقع ہوئی، اسی رات قریش کے کانوں میں اس کی بھنک پڑ گئی اور ان کے اندر کہرام مچ گیا کیونکہ اس بیعت کے جو نتائج ان کی جان و مال پر مرتب ہوسکتے تھے، اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ صبح ان کے بڑے بڑے آدمی جمع ہوئے اور اہل مدینہ کی قیام گاہ پر پہنچ کر کہا :

اے گروہِ خزرج! ہمیں خبر ملی ہے کہ تم ہمارے اس آدمی (یعنی رسولﷺ ) سے ملے ہو اور تمہارا ارادہ ہے کہ اسے ہمارے ہاں سے نکال لے جاؤ اور تم اس سے ہمارے خلاف جنگ کی بیعت کر رہے ہو۔ اللہ کی قسم عرب کاکوئی قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمیں تمہارے خلاف جنگ کرنے سے زیادہ ناگوار ہو۔

 یہ بیعت رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر ہوئی تھی۔ مشرکینِ خزرج اس بیعت کے بارے میں لاعلم تھے اس لیے انہوں نے اٹھ کر حلفاً کہا کہ ایسا نہیں ہوا، اور ہم اس طرح کی کوئی بات نہیں جانتے۔ اس کے بعد قریش کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس گئے اور اس سے یہ معاملہ دریافت کیا۔ اس نے کہا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ میری قوم مجھ سے مشورہ لیے بغیر نہیں کر سکتی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی میر ی قوم مجھ سے مشورہ لیے بغیر یہ کام نہیں کرسکتی تھی۔ اس موقع پر مسلمان ایک دوسرے کو نظروں ہی نظروں میں دیکھتے رہے اور کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان نہیں کھولی۔

گو قریش یہ جوابات سن کر پلٹ گئے لیکن انہیں اطمینان نہ ہوا اور وہ مسلسل اس ٹوہ میں لگے رہے اور بالآخرا نہیں یقین ہوگیا کہ واقعی اس طرح کی بیعت ہوئی ہے، لیکن انہیں یہ خبر اس وقت ہوئی جب حجاج اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے۔ ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا لیکن موقع نکل چکا تھا البتہ انہوں نے سعدؓ بن عبادہ اور منذر ؓ بن عمرو کو دیکھ لیا اور ان کو پکڑنا چاہا۔ حضرت منذرؓ بچ نکلے مگر سعدؓ بن عبادہ پکڑے گئے۔ قریش کے لوگ انہیں باندھ کر مارتے پیٹتے مکہ لے آئے۔ وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ نے آکر انہیں چھڑایا کیونکہ مدینہ میں ان کے قافلوں کو حضرت سعدؓ پناہ دیا کرتے تھے۔ ادھر ان کی گرفتاری کا علم جب انصار کو ہوا تو وہ پلٹ کر مکہ آنے لگے لیکن راستے ہی میں وہ ان کو مل گئے اور وہ سب مدینہ پلٹ آئے۔

          مدینہ واپس پہنچ کر انصار نے بہت تیزی سے اسلام پھیلایا اور بڑے زبردست دینی جوش کے ساتھ بت شکنی میں مشغول ہوگئے۔

ہجرتِ مدینہ

           انصار نے عقبہ کے مقام پر نبی كریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تواس کے بعد نبی کریم  ﷺ نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا اور فرمایا:

 اللہ عزوجل نے تمہارے لیے بھائی پیدا کر دیے ہیں اور ایک ایسا شہر مہیا کر دیا ہے جہاں تم امن سے رہ سکتے ہو۔

 لیکن مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ انہیں اس راستہ میں طرح طرح کی آزمائشوں اور تکالیف سے گزرنا پڑا۔ قریش چونکہ اس ہجرت کے نتائج سے اچھی طرح واقف تھے اس بنا پر انہوں نے مسلمانوں کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ہجرت کرنے والے لوگوں کو سخت اذیتیں پہنچائیں۔ سب سے پہلے حضرت ابوسلمہؓ نے ہجرت کی تو قریش نے ان کی بیوی اور بچے کو روک لیا اور وہ اکیلے ہی مدینہ پہنچے۔ بعد میں بڑی مشکلات کے بعد حضرت ام سلمہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی مدینہ پہنچیں۔ حضرت صہیب ؓ جب ہجرت کرنے لگے تو قریش نے ان کا سارا مال ضبط کر لیا۔ یوں وہ اپنا سارا مال ان کے حوالے کرکے مدینہ پہنچے۔ اس واقعہ کی اطلاع جب نبی کریم ﷺ  کو ہوئی آپؐ نے فرمایا: ’’ربح صہیب، ربح صہیب‘‘ یعنی صہیبؓ نفع میں رہے۔)[1](

 ہجرت کے اذنِ عام کے بعد مہاجرت کا سلسلہ چل پڑا، حضرت عامر ؓ بن ربیعہ اپنی بیوی لیلیٰ ؓ بنت ابی حثمہ کے ساتھ نکلے، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت بلالؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ ان کی اہلیہ حضرت رقیہؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زید ؓ بن حارثہ، حضرت طلحہؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت ابو حذیفہؓ، حضرت زیبر بن العوام ؓؓ اور بہت سے دوسرے صحابہ ہجرت كرنے والوں میں شامل تھے۔ دوسرے مہاجرین تو چھپ چھپ کر نکلے لیکن حضرت عمر ؓ بیس سواروں کے ساتھ علانیہ نکلے۔ آخر میں مکہ میں نبی کریم ﷺکے ساتھ دو جان نثاروں (حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت علیؓ ) کے علاوہ صرف وہی لوگ باقی رہ گئے جو کسی معذوری کی وجہ سے نہ جاسکتے تھے یا وہ راستے میں پکڑے گئے تھے، اور کسی آزمائش اور فتنہ میں پڑگئے تھے۔

قریش کی پریشانی

          مسلمانوں کے اس طرح مدینہ ہجرت کے بعد کفارِ قریش کو یقین ہو گیا تھا کہ کسی روز خود نبی کریم ﷺ بھی مدینے کی طرف ہجرت فرما جائیں گے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ آپؐ کی ہجرت سے کس قسم کے نتائج ظاہر ہوں گے۔ محمدﷺ کی زبردست شخصیت، آپؐ کی غیر معمولی خوبیوں اور آپؐ کی قائدانہ صلاحیت سے وہ ناواقف نہ تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کو مدینہ کی صورت میں ایک ٹھکانا میسر آگیاہے اور مدینہ کے دو طاقت ور قبائل کی حمایت آپؐ کو میسر آگئی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ مدینہ کا محل وقوع ایسا تھا کہ یمن سے شام تک، بحر احمر کے ساحل سے ان کی تجارتی شاہراہ گزرتی تھی اور اس کے محفوظ ہونے پر قریش مکہ اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، یہ راستہ مدینہ سے گزرتا تھا جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جانے کے بعد ان کی معاشی شہ رگ کٹ جانے کا انہیں شدید خدشہ تھا۔ شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک تھی۔ طائف اور دیگر مقامات کی تجارت اس کے علاوہ تھی۔ اسی وجہ سے بیعت عقبہ اور اس کے بعد مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کی بنا پر ان میں کھلبلی مچ گئی اور انہوں نے اس کے سدباب کے بارے میں سوچ بچار شروع کر دی۔)[2](

نبی کریمﷺ کے قتل کا فیصلہ

قریش کے سردار دعوت اسلام کے علم بردار محمدﷺ اور آپؐ کی دعوت کے سدباب کے بارے میں سوچ  بچار کرنے لگے۔ اس حوالے سے آخری فیصلہ کرنے کے لیے قریش کے تمام قبائل کے سرداروں کا ایک خفیہ اجتماع دارالندوہ میں منعقد ہوا اور اس بات پر مختلف تجاویز آئیں کہ اس خطرے کا سدباب کیسے کیا جائے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر قید کر دیا جائے یہاں تک کہ موت آجائے، لیکن اس رائے کو اس بنا پر رد کیاگیا کہ اس کی خبر پا کر اس کے ساتھی قوت و طاقت سے اسے چھڑا لیں گے۔ ایک دوسری تجویز یہ آئی کہ اسے جلاوطن کر دیا جائے پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا، کہاں رہتا ہے۔ بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہماری زندگیوں میں اس کی وجہ سے جو نظام معطل ہے وہ بحال ہوجائے گا۔ لیکن یہ تجویز بھی رد کر دی گئی کہ اس کے کلام میں ایسی اثرآفرینی ہے کہ کوئی بھی قبیلہ اس کا پیرو بن جائے گا اور پھر قوت پاکر تمہارے اوپر بھی غلبہ پالے گا۔ آخر کار مکہ کے سب سے بڑے مجرم ابوجہل نے یہ رائے پیش کی کہ ’’ہم ہر قبیلے سے ایک عالی نسب،مضبوط اور تیز دست نوجوان کا انتخاب کریں اور وہ سب مل کر یک بارگی آپؐ پر ٹوٹ پڑیں اور آپؐ کو قتل کرڈالیں۔ اس طرح محمدکا خون تمام قبائل پرتقسیم ہو جائے گا اور بنو عبدمناف کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ ساری قوم سے جنگ کرسکیں، لہٰذا خون بہا پر راضی ہوجائیں گے۔‘‘ اجتماعی جرم کا یہ منصوبہ بنا کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔ اس ساری کارروائی کو اس قدر مخفی رکھا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائی۔ اس شیطانی مشاورت میں خود شیطان بھی ایک بزرگ کی شکل میں شریک ہوا اور کہا گیا کہ یہ بزرگ خاص طور پر اس مجلس میں آئے ہیں اس نے تمام تجاویز کو مسترد کر دیا لیکن ابو جہل کی تجویز پر اس نے خوب داد دی اس طرح اس شیطانی تجویز پر عمل کا فیصلہ ہوا۔)[3](

ان کی اس چال اور قتل کی سازش کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کردی۔

وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللہُ وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ)[4](

(اور اے نبیؐ وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ کفار تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

 

 

 

نبی کریمﷺ کی ہجرت

جب معاملہ یہاں تک پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ اجازت اس دن ملی جس کے بعد آنے والی رات قریش نے آپﷺ کے قتل کے لیے مقرر کی تھی۔ حضرت جبریل ؑ نے آکرآپﷺ  کو قریش کے ارادے سے باخبر کیا اور آپؐ  کو ہدایت کی کہ آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ آپؐ دوپہر کو منہ پر کپڑا لپیٹے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے:

 ہم دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ رسول اللہﷺمنہ ڈھانکے ہوئے ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں آپ کبھی ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ’’میرے باپ ان پر قربان ہوں ضرور کوئی بات ہے جس کی وجہ سے وہ اس وقت تشریف لائے ہیں۔‘‘

 پھر نبی کریمؐ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپؐ کو اجازت دی گئی اور آپؐ اندر تشریف لائے۔ پھر ابوبکرؓ سے فرمایا تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹا دو۔ ابوبکر ؓ نے کہا ’’یہ تو آپؐ ہی کے گھر کے لوگ ہیں۔‘‘ تب آپؐ نے فرمایا ’’مجھے روانگی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، مجھے تو معیت کا شرف نصیب ہوگا؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ ابوبکرؓ نے عرض کیا میری ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپؐ لے لیں۔ آپؐ نے فرمایا مگر قیمت دے کر لوں گا۔ ابوبکر ؓنے قیمت بتائی اور آپؐ نے فرمایا یہ میں تمہیں دوں گا۔)[5](

 اس کے بعد نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر ؓ نے عبداللہ بن اریقظ کو جو راستوں کا ماہر تھا، اجرت پر رہنمائی کے لیے مقرر کیا۔ یہ وہی شخص ہے جس کو طائف سے و اپسی پر رسول اللہﷺنے پیغام بر بناکر مکہ کے سرداروں کے پاس پناہ حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔اگرچہ یہ مشرک تھا مگر اتنا وفادار تھا کہ ہجرت کے اس انتہائی نازک سفر کے موقع پر بھی مکمل قابل اعتماد ثابت ہوا حالانکہ آپؐ کی مخبری کرنے والے کے لیے قریش نے بہت بڑے انعام کا اعلان کررکھا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور اسے بتایا کہ جس جگہ ہم بلائیں اسی وقت  اونٹنیوں كو لے کر اس جگہ پہنچ جانا)[6](۔

نبی کریم  ﷺ کے مکان کا گھیراؤ

          اس کے بعد نبی کریم  ﷺ اپنے مکان پرتشریف لے گئے اور رات تک وہیں رہے تاکہ دشمنوں کو ذرہ برابر بھی اس بات کا شبہ نہ ہونےپائے کہ آپؐ ان کے ارادوں سے باخبر ہوچکے ہیں۔ رات کو ٹھیک اپنے طے شدہ وقت پر وہ سب لوگ جو آپؐ کے قتل پر مامور کیے گئے تھے، گھات لگاکر آپؐ کے دروزے پر آکر بیٹھ گئے۔ یہ کل بارہ آدمی تھے جن کے نام یہ ہیں:

۱۔ ابوجہل                    ۲۔ حکم بن العاص

۳۔عقبہ بن ابی معیط            ۴۔ نضر بن الحارث

۵۔ امیہ بن خلف              ۶۔ منبہ بن الحجاج  

۷۔ زمعہ بن الاسود             ۸۔ طعیمہ بن عدی

۹۔ ابولہب                   ۱۰۔ ابی بن خلف

۱۱۔ نُبَیہ بن الحجاج)[7](          

قریش کے یہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ آپؐ پر ایک ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ اس نازک لمحے میں آپؐ نے حضرت علیؓ کو اپنی سبز خضرمی چادر اوڑھا کر لٹا دیا اور فرمایاکہ یہ چادر اوڑھ کر سو جاؤ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ اس دوران میں کہ دشمن آپ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے، آپؐ نہایت اطمینان سے باہر تشریف لائے اور ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔ آپؐ کی زبان مبارک پر یہ آیات تھیں:

وَجَعَلْنَا مِنْ م بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْن )[8](

ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کر دی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کر دی ہے، ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ نہیں دیکھ رہے ہیں۔

اس کے بعد آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ صبح ہوئی تو ان لوگوں نے حضرت علیؓ  کو نبی کریمﷺ کے بستر سے اٹھتے دیکھا۔ اس وقت انہیں معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ تو کبھی کے جاچکے ہیں۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے آپؐ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا:

’’ مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘۔

حضرت علیؓ   کو نبی کریمﷺ اس بنا پر بھی چھوڑ گئے تھے کہ آپؐ کے پاس قریش کی امانتیں تھیں تاکہ وہ انہیں واپس کرکے مدینہ آجائیں۔

الوداع اے مکہ الوداع

نبی کریمﷺ ۲۷ صفر ۱۳ نبوی کو ضروری مال و اسباب کے ساتھ رات کی تاریکی میں اپنے بستر پر حضرت علیؓ  کو چھوڑ کر قاتلین کے بالکل درمیان سے نکل کر اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر پہنچے۔

رات گئے اپنے صدیق کے ساتھ ان کے گھر کی پچھلی کھڑکی سے دونوں حضرات نکلے اور جنوب (یمن) کی طرف چل پڑے حالانکہ مدینہ شمال کی جانب تھا اور بلند ترین اور مشکل ترین پتھریلے پہاڑ  کی چوٹی پر جا پہنچے، جہاں ایك غارمیں آپ نے پناہ لی اور یہ غار تاریخ  وسیرت كی كتابوں میں غار ثور كے نام سے قیامت تك كےلیے معروف ہو گئی۔

غار ثور کے نام سے مشہور غار میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ  داخل ہوئے تاکہ جگہ ٹھیک کر لیں اور اگر وہاں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہو تو اسے ہٹا دیں۔ الغرض غار میں مختلف سوراخ تھے۔ صدیق اکبر نے اپنی چادر پھاڑ پھاڑ کر ان سوراخوں کو بند کیا صرف دو سوراخ بچ گئے انہوں نے دونوں میں اپنے پاؤں رکھ دئیے اور نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے  اور صدیق اکبر کی ران پر سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر سیدنا صدیق اکبر کے پاؤں پر کسی موذی جانور نے ڈس دیا لیکن آپ نے حرکت نہ کی، مبادہ کہ نبی کریمﷺ بے آرام ہوں گے۔ درد کی شدت سے آنسو بہہ پڑے جو آپؐ کے چہرہ انور پر پڑے جس سے آپ بیدار ہو گئے۔ آپؐ نے اس جگہ اپنا لعاب دھن لگایا تو درد جاتا رہا۔ دونوں احباب نے جمعہ ہفتہ اور اتوار کی رات وہیں گزاری۔ قریش مکہ کے کھوجی پاؤں کے نشان دیکھ کر غار تک پہنچ گئے جبكہ غار کے دھانے پر کبوتری نے گھونسلہ بنا لیا تھا اور ایک مکڑی نے جالا بھی بُن لیا تھا۔ آپؐ اور صدیق اکبرؓ غار سے دشمنوں کے پاؤں دیکھ رہے تھے لیکن وہ جالے اور گھونسلے کو دیکھ کر واپس چلے گئے۔)[9](

یثرب کی طرف روانگی

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عبداللہ بن اریقط لیثی کو اجرت پر بطور گائیڈ ساتھ رکھا تھا اور اونٹنیاں بھی اسی کے پاس تھیں طے شدہ وقت کے مطابق تیسرے روز وہ آ گیا۔  ضروری سامان لے کر بحر احمر کے غیر معروف راستے سے قافلہ لے کر روانہ ہوا اس مختصر قافلے میں عامر بن فہیرہ بھی شامل تھے۔ ایک سواری پر نبی کریم ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق تھے اور دوسری پر عامر اور عبداللہ۔ سفر  پہلے مدینہ کے بالکل مخالف سمت میں کیا گیا پھر دور سے مڑتے ہوئے سمندر کی جانب سفر کیا گیا تاکہ دشمنوں کو بالکل اندازہ نہ ہو سکے۔

ام معبد کے خیمے میں

راستے میں زادِ راہ ختم ہو گیا بھوک لگی تھی مکہ سے ایک دن کی مسافت پر ام معبد نامی خاتون راستے میں ایک گاؤں میں رہتی تھی ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا۔ اور آتے جاتے مسافروں کی خدمت کرتی رہتی تھی۔ وہاں سے گزر ہوا تو آپؐ نے پوچھا، خاتون کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا۔ ام معبد نے کہا: میں تو مہمان داری خوب کرتی ہوں لیکن قحط کی وجہ سے ہمارے جانور لاغر ہو گئے ہیں ابو معبد بکریاں لے کر چرانے گئے ہیں گھر میں کچھ بھی نہیں ہے کونے میں ایک بکری تھی آپ نے فرمایا: ام معبد اگر اجازت ہو تو اسے دوھ لوں۔ اس نے عرض کیا: یہ تو مریل بیمار ہے چل نہیں سکتی تھی اس لیے ریوڑ کے ساتھ نہیں گئی آپ نے بکری کے تھنوں پر ہاتھ پیرا تھن دودھ سے بھر گئے بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں آپ نے ایک برتن منگوا کر دودھ دوھا۔ اتنا دودھ ہو گیا کہ برتن لبا لب بھر گیا۔ پہلے آپ نے ام معبد کو پلایا پھر اپنے ساتھیوں کو پیٹ بھر کر پلایا اور آخر میں خود نوش فرمایا۔ ادھر بکری کے تھن ابھی تک بھرے ہوئے تھے آپ نے پھر دودھ دوھا اور ایک بار پھر برتن بھر گیا۔ وہ دودھ وہیں چھوڑا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔

تھوڑی دیر میں ابو معبد ریوڑ لے کر آ گئے۔ گھر میں دودھ دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا یہ کہاں سے آیا، ام معبد نے سارا قصہ سنا دیا۔ اس پر ابو معبد نے کہا ہو نہ ہو یہ وہی قریشی سردار ہے جس کے بارے میں آج کل بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ ابو معبد نے بیوی سے کہا اچھا یہ بتاؤ وہ کیسا تھا۔ اس پر ام معبد نے آپ ﷺ کی اپنے الفاظ سے ایسی تصویر کشی کی کہ کوئی کیمرے کی آنکھ بھی اس قدر لطیف تصویر نہیں بنا سکتی۔ آپؐ کی ذات گرامی پر ام معبد کا تبصرہ تاریخ کا حصہ بن گیا جس میں فصاحت و بلاغت کی انتہا کے ساتھ ساتھ آپ کی بے شمار صفات ایک سانس میں بیان کر دیں یہ تبصرہ عربی میں پڑھنے کے لائق ہے یہاں اصل عبارت اور  اس کا سلیس ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الْوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الْخَلْقِ، لَمْ تَعِبْهُ ثَجْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صَعْلَةٌ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ، فِي عَيْنَيْهِ دَعِجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ، وَفِي لِحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ، أَزَجُّ أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الْوَقَارُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ الْبَهَاءُ، أَجْمَلُ النَّاسِ وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ، حُلْوُ الْمَنْطِقِ فَصْلًا، لَا نَزْرٌ وَلَا هَذْرٌ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ، يَتَحَدَّرْنَ رَبْعَةٌ لَا تَشْنَأَهُ مِنْ طُولٍ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا وَأَحْسَنُهُمْ، قَدْرًا لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ، إِنْ قَالَ: سَمِعُوا لِقَوْلِهِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ لَا عَابِسٌ وَلَا مُفَنَّدٌ،)[10](

ام معبد نے کہا:

چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی، جمال جہانِ تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، باریک اورباہم ملے ہوئے ابرو، چمکدار کالے بال، خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پرکشش، دور سے (دیکھنے میں) سب سے تابناک اور پر جمال، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں، گفتگو میں چاشنی، بات  واضح اور دو ٹوک نہ مختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہوں، درمیانہ قد نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے اور نہ لمبا کہ ناگوار لگے۔ دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ اور خوش منظر ہے، رفقاء آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم، نہ ترش رو، نہ لغو گو۔)[11](

مدینہ کے راستے میں سراقہ بن مالک نے بھی انعام کے لالچ میں آپ کا پیچھا کیا۔ بالکل قریب پہنچ گیا لیکن آپؐ پر غالب نہ آ سکا اس کا گھوڑا دوبار زمین میں دھنسا، گر گیا۔ حضرت ابوبکرؓ  یہ منظر دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’لاتحزن ان اللہ معنا‘‘ ڈرو نہیں  اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ سراقہ نے عاجز آ کر امان طلب کی اور آپ کو قتل کرنے آنے والا آپ کا محافظ بن کر لوٹا، اور دیگر آنے والوں کو بھی لوٹاتا ہوا واپس چلا گیا۔ راستے میں بریدہ اسلمی سے بھی سابقہ پیش آیا جو انعام کے لالچ میں آپ کو ختم کرنے نکلے  تھے لیکن جب ملاقات ہوئی تو اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً اپنے قبیلے کے ستر آدمیوں سمیت  مسلمان ہو گئے۔ اسی طرح  دوران سفر مختلف واقعات رونما ہوئے جن كا ذكر سیرت كی كتابوں میں موجود ہے اور آپ کا قافلہ بروز پیر ۸ ربیع الاوّل 14 نبوی یعنی سن ایك ہجری بمطابق ۲۳ ستمبر ۶۲۲ء کو قبا کے مقام پر وارد ہوا۔



[1]           طبقات ابن سعد:3/171۔

[2]           سیرة ابن ہشام: 2/223۔

[3]           ابن كثیر، اصبہانی اور دیگر سیرت نگاروں نے یہ واقعات الفاظ كے اختلاف اور مفہوم كے اتفاق كے ساتھ بیان كیے ہیں،دیكھیے، ابن كثیر: 2/228 و دلائل النبوة:1/200۔

[4]           سورة الانفال:۳۰۔

[5]           صحیح البخاری، حدیث :نمبر 3905۔

[6]           ابن ہشام :1/482۔

[7]           سیرة ابن ہشام ۱/ ۴۸۲۔

[8]           سورة یٰس: ۹

[9]           طبقات ابن سعد: 1/170۔

[10]         الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد (المتوفى: 405هـ) المستدرك على الصحيحين،حدیث نمبر: :4274 دار الكتب العلمية – بيروت 1990م

[11]          ترجمہ: صفی الرحمٰن مبارک پوری، الرحیق المختوم:1/ ۶۴۴۔

Post a Comment

0 Comments