سيرت طيبه مسلمانوں پر قریش کا دوسرا بڑا حملہ یا غزوۂ احداسباب ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE



مسلمانوں پر قریش کا دوسرا بڑا حملہ یا غزوۂ احداسباب

غزوہ بدر میں بدترین شکست کے بعد قریش نے مکہ پہنچ کر یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس وقت تک ماتم نہ کریں گے جب تک مسلمانوں سے اس کا بدلہ نہ لے لیں چنانچہ ابو سفیان جو قافلہ لے کر نکل گیا تھا اور شریکِ جنگ نہیں تھا، اس کی سربراہی میں مسلمانوں پر بڑے حملہ کی تیاری شروع ہو گئی۔ مکہ کے  تمام بڑے سردار قتل ہو چکے تھے۔ ہر گھر میں ماتم کا سماں تھا۔ ہر شخص انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔مدینہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں کی جماعتیں اہلِ مکہ کی تجارتی شاہراہ پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔مسلمانوں  کے لیے قریش سے کھلم کھلا جنگ کے بعد ان کا معاشی راستہ روکنا مزید ضروری ہو گیا تھا۔ قریش نے متعدد مرتبہ مدینہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں کا نظامِ جاسوسی نہایت  بہترین تھا اور  مسلمان مجاہدین ہمہ وقت  اِرد گرد گشت کرتے رہتے تھے۔

غزوہ احد سے پہلے ابو سفیان کا حملہ

ایک مرتبہ ابو سفیان خود دو سو کی تعداد میں سواروں کے ساتھ مدینہ آیا۔ اپنے لشکر کو باہر بٹھا کر رات کے اندھیرے میں یہودیوں کے پاس آ کر جنگ کے معاملات  اور حملہ کرنے کے بارے میں مشاورت کی اور  فیصلہ  ہوا کہ یہ موقع مناسب نہیں ہے۔ مشاورت اور یہودی سردارسلام بن مشكم کے ہاں طعام و قیام  کے بعد  ابو سفیان اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور جاتے ہوئے ایک دستہ بھیج کر عریض نامی کھیتوں پر حملہ کرایا۔ اس دستے نے کھیتوں اور پھلوں کو نقصان پہنچانے کے بعد آگ لگا دی اور ایک انصاری اور ان کے حلیف کو قتل کر کے بھاگ گئے۔ یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہ ﷺ نے ان کا تعاقب کیا اور کرکرۃ الكدر تک گئے لیکن وہ غارت  گر بھاگ چکے تھے اور جاتے ہوئے وزن ہلکا کرنے کی خاطر اپنی ستو کی بوریاں گراتے گئے جس کی وجہ سے اس تعاقب کا نام غزوہ السویق پڑ گیا۔ سویق عربی میں سَتّو کو کہتے ہیں۔([1])

غزوہ احد کا ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ صفوان بن امیہ کو جو مکہ کا ایک رئیس تھا، قریش کے شام جانے والے قافلے کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ مسلمان راستہ روک لیتے ہیں، ہمیں اس کا کوئی  مستقل حل ڈھونڈنا ہو گا۔ اس پر اسود بن عبدالمطلب نے مشورہ دیا کہ مغربی راستہ چھوڑ کر  مشرقی راستہ اختیار کیا جائے یعنی  مکہ سے شام جانے والا اصل راستہ جو مدینہ کے قریب  سے گزرتا ہے، اس کو چھوڑ کر  مدینہ کے مشرق سے ہوتے ہوئے بڑا چکر کاٹ کر تبوک سے باہر نکلا جائے، اس طرح كہ موجودہ دور کے ریاض، قصیم اور عر عر سے ہوتے ہوئے  مدینہ کو اپنے بائیں ہاتھ رکھ کر  شام کا سفر کیا جائے۔

اس فیصلہ کی خبر مدینہ پہنچ گئی اور رسول اللہ ﷺ نے سو گھڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت  زید بن حارثہ کی قیادت میں روانہ کیا جس نے راستے میں  قافلہ پر یلغار کی اور پورا قافلہ ان کے قبضہ میں آ گیا۔ صفوان سمیت کئی لوگ  بھاگ   گئے۔مسلمانوں نے قافلے کو راستہ بتانے والے فرات بن حبان کو گرفتار کر لیا اور بہت بڑی مقدار  میں مالِ غنیمت حاصل  کیا جو تقریباً  ایک لاکھ درہم کےبرابر تھا۔  یہ واقعہ بھی غزوہ احد  کا ایک سبب بنا کہ قریش  نے فیصلہ کیا کہ  روز 


روز کے اس قصے کو ختم کر کے ہی دم لیا جائے۔


مکی لشکر کی تعداد تین ہزار تھی جن میں ایک ہزار قریش اور دو ہزار دیگر قبائل کے لوگ تھے۔ ان کے پاس تین ہزار  اونٹ، دو سو گھوڑے اور سات سو زرہیں تھیں۔ قریش اپنے ساتھ ۱۵ یا ۱۷ عورتیں بھی لائے تھے جن کی سردار ہند زوجہ ابو سفیان تھی۔ ابو سفیان اس فوج کا کمانڈر تھا اور خالد بن ولید گھڑ سواروں کا قائد جب کہ عکرمہ بن ابی جہل بھی اس کے مرکزی قائدین میں شامل تھا (یہ تینوں بعد میں مسلمان ہوئے)۔

عَلَم برداری کا فریضہ قبیلہ عبدالدار ہی کے پاس تھا جن کے بارہ افرادغزوہ بدر میں باری باری قتل کر دئیے گئے تھے۔ جوش انتقام اس قدر زیادہ تھا کہ اس قبیلہ کے افراد نے بہادری کے بے مثال ریکارڈ قائم کیے۔ان  بارہ میں سے آٹھ علم برداروں کو صرف حضرت علیؓ نے قتل  کیا تھا۔

میدان احد کا انتخاب

مدینہ منورہ حاضری دینے والے اکثر مسلمان میدان احد کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور یقیناً وہاں جا کر مسلمان کا ایمان اور جذبۂ ایمانی خوب بڑھ جاتا ہے۔ یہ جگہ موجودہ مسجد نبوی اور اس وقت کے مدینہ منورہ سے شمال کی جانب اور پہاڑ کے دامن میں واقع ہے اور آج کل مدینہ شہر تقریباً اس پہاڑ تک پھیل چکا ہے۔ رنگ روڈ میدانِ احد کے پاس سے گزرتی ہے۔ آج کل کا احد غالباً مقبرہ  احد ہے جہاں ستر صحابہ کرام کے مقابر ہیں۔ اگر چار دیواری سے اندر دیکھیں تو سیدنا حمزہؓ کی جگہ  کی نشاندہی ہوتی ہے۔ باقی سب معمولی نشانات ہیں۔ یہیں پر  وہ ٹیلہ بھی ابھی تک موجود ہے جہاں رسول اللہ نے حضرت عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں ۵۰ تیر اندازوں کا رسالہ مقرر کیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ  قریشی لشکر مدینہ شہر سے گزر کر  دوسری جانب کوہ احد کے دامن میں لنگر انداز ہوا۔ اس کی مثال اس طرح  دی جا سکتی ہے کہ ایک قافلہ لاہور سے اسلام آباد کے لیے نکلے اور وہ اسلام آباد شہر میں داخل  ہونے کے بجائے مشرقی جانب سے کہوٹہ نیلور اور بہارہ کہو کے پیچھے سے ہوتا ہوا مارگلہ پہاڑی کے دامن میں پڑاؤ کرے۔ دراصل لشکرِقریش کی جاسوسی کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ مسلمان مدینہ سے باہر نہیں نکلیں گے اور ہم احد کے دامن میں جہاں ارد گرد  کھجوروں  کے باغات اور چشمے، ہیں اور زمین بھی نرم ہے،  یہاں آرام کرنے کے بعد مدینہ شہر میں داخل ہوجائیں گے۔

اس کے برعکس مدینہ میں مشاورت کے بعد طے پایا کہ ہم احد میں جا کر آمنے سامنے  لڑیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  مدنی لشکر مکی لشکر سے گزر کر بالکل پہاڑ کے دامن میں اترا اور یہ جگہ نسبتاً بلند تھی۔ پیچھے متصل  پہاڑ تھا۔ آپ کے ساتھ ۱۰۰۰ افراد تھے جن میں سے ۳۰۰ منافقین عبداللہ بن اُبَی کے ساتھ عین میدان سے واپس  آ گئے۔ اس طرح ایک طرف سات سو نہتے مجاہدین اور دوسری طرف تین ہزار اسلحہ سے لیس، اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار مشرکین تھے جو انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ معرکے کے آغاز ہی میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری  رہا۔ حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عمر، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت طلحہ، حضرت ابو دجانہ، حضرت ابو عبیدہ، الغرض  تمام صحابہ نے جانثاری کی تاریخ رقم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرکین کو ان کے خیموں سے بھی پرے دھکیل دیا، تمام عَلَم بردار قتل کر دئیے گئے، مشرکین کا عَلَم زمین پر گر گیا اور اسے اٹھانے والا کوئی نہ بچا۔ اس طرح مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ پسپا ہو گئے یہاں تک کہ ان کی عورتیں  ٹانگوں سے کپڑے  اٹھا کر بھاگنے لگیں۔([2]) جب مسلمان مکمل طور پر فتح حاصل کر چکے تو مالِ غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا۔ ادھر ۵۰ افراد کا دستہ جو پہاڑی پر تعینات تھا اور جس نے اپنا کام بخوبی سرانجام دیتے ہوئے تین مرتبہ خالد بن ولیدکے حملہ کو پسپا کیا تھا، جب کہ خالد بن ولید دو سو گھڑ سواروں کے ساتھ عقب سے حملہ کرنا چاہتا تھا، جبل رماۃ پر متعین ان لوگوں نے جب دیکھا کہ کفار بھاگ چکے ہیں اور مالِ غنیمت سمیٹا جا رہا ہے تو وہ بھی اسے جمع کرنے دوڑ پڑے۔ ان کے کمانڈر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓنے بہت سمجھایا  کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ تم نے اس وقت تک پہاڑی مورچہ نہیں چھوڑنا جب تک کہ میں حکم نہ دوں، چاہے تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں اور  چاہے تم دیکھو کہ ہم مالِ غنیمت جمع کر رہے ہیں، تم نے اسی جگہ پر ڈٹے رہنا ہے([3]) لیکن تیر اندازوں نے اپنے کمانڈر کی بات یہ کہہ کر نہ مانی کہ اب ہم جیت چکے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا کرمالِ غنیمت جمع کریں گے۔ یُوں چالیس تیر انداز پہاڑی چھوڑ گئے۔ اب صرف دس تیر انداز باقی تھے۔ یہ دیکھ کر خالد بن ولید اپنے گھڑ سواروں کے ساتھ  لوٹا اور تمام تیر اندازوں کو قتل کرتا ہوا مال غنیمت سمیٹنے والے مسلمانوں پر پیچھے سے بھرپور حملہ کر دیا اور نعرہ لگایا تو آگے بھاگنے والے مشرکین بھی پلٹ آئے۔ اس طرح مسلم لشکر جیسے چکی کے دو پاٹوں میں پِس گیا  اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ مسلمانوں کو کوئی راستہ نہیں سجھائی دیتا تھا۔ اس بھگدڑ میں خود مسلمان مسلمانوں پر تلواریں چلانے لگے۔ خالد بن ولید کا لشکر نبی کریم ﷺ کے بالکل قریب آ گیااور آپﷺ کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ دیکھ کر جانثاران نبی یکے بعد  دیگرے دفاعِرسول میں کٹنے لگے۔ ۷ صحابہ کرام نے تیروں اور تلواروں کے آگے ڈھال بن کر آپ ﷺ کی حفاظت کی۔ حضرت ابو دجانہ دشمن کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو گئے اور اس قدر تیر جسم پر لگے کہ تیر ہی تیر نظر آتے تھے، جسم کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس طرح شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔

محمد ﷺکے شہید کر دیے جانے کی افواہ

اسی دوران میں یہ افواہ پھیل گئی کہ محمد ﷺقتل کر دیے گئے ہیں۔ آپ ﷺکے گِرد گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ جو نو صحابہ کرام آپ کی حفاظت پر مامور تھے ان میں سے ۷ کٹ چکے تھے، صرف   حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ باقی رہ گئے تھے۔([4]) مشرکین آپ پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔ عتبہ  جو سعد بن ابی وقاص کا بھائی تھا اس نے آپؐ پر منجنیق سے پتھر پھینکا جس سے آپ گر گئے اور آپ کا داہنا پچھلا دانت شہید ہو گیا۔  عبداللہ بن شہاب زہری نے آپ کی پیشانی پر وار کیا۔ عبداللہ بن قمئہ نے آپ پر تلوار سے وار کیا جو آپ کے کندھے پر لگا۔  زرہ کی وجہ سے زیادہ زخم تو نہ آیا، البتہ آپ  ایک ماہ تک اس کی تکلیف محسوس کرتے رہے۔ اس نے ایک اور وار کیا جس سے چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خود کی دوکڑیاں اس  میں گھس گئیں، آپ زخمی ہو کر  ایک گڑھے میں گر گئے، سر پر شدید  چوٹ تھی۔یہ انتہائی نازک موقع تھا۔ ایک طرف دو صحابہ اور دوسری طرف ۱۰۰ شہسوار تھے۔ جب آپ نے بآواز بلند صحابہ کو پکارا تو جس کے کان میں آواز پڑی، دوڑ کر آپ کی طرف آیا، یُوں تقریباً ۱۲ صحابہ آپ کے قریب پہنچ  گئے اور پہلے سے موجود  دونوں صحابہ کی  جانبازی میں ان کا ساتھ دینے لگے۔

حضرت مصعب بن عمیر کی شکل رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم  سے بہت ملتی تھی۔ ان کی شہادت سے  یہ افواہ ہر طرف پھیل گئی کہ محمدﷺ شہید کر دیے گئے ہیں۔ صحابہ کرام  مایوس ہو گئے، کئی ہاتھ پر ہاتھ دھر  کر بیٹھ گئے، چند مدینہ کی طرف چل پڑے، کسی کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس انتہائی انتشار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبّت کی انتہا میں صحابہ کے رویے مختلف تھے۔ بعض  نے کہا کہ جس کام کی خاطر آپ کی جان قربان ہو گئی، اس پر ہم بھی قربان ہوں گے، کسی نے کہا اب جینے کا کیا فائدہ، کسی نے کہا محمد ﷺ تو اپنا دین پہنچا چکے تھے، اب ہمیں آگےکام کرنا ہے۔ اس انتہائی نازک صورت حال میں جب صرف حضرت طلحہؓرسول اللہ کا دفاع کر ر ہے تھے، سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ اس جگہ پہنچے تو دیکھا کہ طلحہ آپ کے آگے بچھ رہے ہیں۔ ابوبکر صدیق فرماتے ہیں میں نے دیکھتے ہی کہا طلحہ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ آپ نے مجھے اور ابو عبیدہ سے فرمایا اپنے بھائی (طلحہ) کو سنبھالو اس نے جنت واجب کر لی ہے۔ بعد میں حضرت ابو دجانہ،علی بن ابی طالب، عمر بن الخطاب، ابو طلحہ، مالک بن سنان، سہل بن حُنَیف، ام عمارہ نسیبہ بنت کعب، حاطب بن ابی بلتعہ، قتادہ بن نعمان اور مالک بن سنان بھی پہنچ گئے۔([5])

دفاع کا خوبصورت انداز

یہ موقع تھا جب مشرکین مسلمانوں پر  مکمل  طور  پر غالب آ چکے تھے اور کئی مسلمان جام شہادت  نوش کر چکے تھے۔ مسلمانوں نے جانبازی كےایسے مظاہرے كیے کہ تاریخ ان كی نظیر پیش كرنےسے قاصر ہے۔ مذکورہ بالا ۱۰ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کے گرد اس انداز میں حصار قائم کیا کہ سب کی پیٹھیں نبی كریم ﷺ کی  جانب تھیں اور چہرے دشمن کی طرف تھے۔ وہ  گول دائرے کی صورت میں آپ کا دفاع کرنے لگے مگر مشرکین نے مزید گھیرا سخت کر لیا۔ ان انتہائی نامساعد حالات میں ان دس صحابہ کرام نے اس انداز سے دشمن کو روکا  کہ جنگ کا پانسہ پھر پلٹ گیا۔ اب رسول اللہ ﷺ کو سب سے پہلے  حضرت کعب بن مالک نے  دور سےدیکھا تو خوشی سے با آواز بلند پكارنے لگے حضور تو زندہ  ہیں، جس سے مسلمانوں میں ایک مہمیز سی پیدا  ہوئی، اس خوشی کی لہر نے جمے خون کو گرما دیا اور صحابہ کرام پوری  پامردی اور حوصلے سے دو بارہ جنگ میں شامل ہو گئے۔ اس طرح حضور اکرم صحابہ کے ساتھ اپنے خیموں تک پہنچ گئے لیکن ابو سفیان اور خالدبن ولید  نے وہاں  تک بھی پیچھا کیا۔ اس وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کے ساتھ مل کر انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔

مشرکین میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ محمد(ﷺ) قتل کر دیے گئے ہیں اس لیے زیادہ تَر نے واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ ان کی  بعض عورتیں مسلمان شہداء کا مثلہ کر  رہی تھیں۔اس موقع پر ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبا لیا اور ان کے کان اور ناک کاٹ کر ہار بنا لیا۔دیگر کئی اور شہدا ءکے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ابوسفیان نے جانے سے پہلے بآواز بلند پوچھا کہ کیا محمد زندہ ہیں؟ مسلمانوں نے حکمِ نبوی پر خاموشی اختیار کی۔اس نے پوچھا کیا ابو بکر زندہ ہیں؟ پھر سب خاموش رہے، پھر اس نے کہا کیا عمر زندہ ہیں؟ اس طرف سے سب خاموش رہے۔اس نے کہا چلو ان سے تو جان چھوٹی۔یہ سن کر حضرت عمر نے بآواز بلند کہا: او دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں اور ابھی تیری رسوائی کا سامان باقی ہے۔ الغرض اس نے حضرت عمر سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا واقعی محمد زندہ ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں سچ کہہ رہا ہوں۔ابو سفیان نے کہا آئندہ سال بدر کے مقام پر پھر ملاقات ہو گی۔رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کے ذریعے سے کہلوایا  کہ ٹھیک ہے اب یہ ہمارے اور تمہارے درمیان طے ہے۔




حمراءُ الاسد تک دشمن کا تعاقب



۷شوال کی رات آپ ﷺ نے غزوہ احد کے اسباب و نتائج پر غور و خوض میں گزاری اور علیٰ الصبح یہ اعلان فرمایا کہ جو لوگ احد میں شریک تھے،  سب تیار ہو جائیں، ہم نے دشمن کا پیچھا کرنا ہے۔اس پر زخموں سے چور صحابۂ کرام تیار ہو گئے حالانکہ ہر گھر میں ماتم برپا تھا لیکن آپ سمجھتے تھے کہ اس موقع پر اگر پیچھا نہ کیا گیا تو کہیں دشمن  پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کردے۔آپ ﷺ مدینہ سے ۸ میل دور حمراء الاسد پہنچ گئے اور دشمن کو اطلاع بھیجی کہ ہم تمہارا تعاقب کر رہے ہیں۔ادھر لشکر قریش واقعی واپسی کا ارادہ کر چکا تھا۔تقریباً ۳۶میل کے فاصلے پر پہنچ کر انہیں خیال آیا کہ ہم نے واپس آکر غلطی کی ہے، ہم تو جیت چکے تھے اب دوبارہ واپس جا کر مسلمانوں کی جڑ کاٹ دیں  لیکن مسلمانوں کے تعاقب کی خبر نے ان پر ایسا رعب  طاری کیا کہ انہوں نے مكہ واپسی ہی میں عافیت سمجھی۔ آپ ﷺ نے۹، ۱۰شوال ۳ھ،  وہیں حمراء الاسد میں قیام کیا اور پھر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔

غزوہ احد میں فتح کس کی ہوئی

غزوہ احد میں کفار ِقریش انتقام کی غرض سے آئے تھے اور انہوں نے حملہ بھی کر دیا لیکن جنگ کا پہلا دور مکمل طور پر مسلمانوں کے حق میں رہا اور کفار کے قدم اکھڑ گئے، یہاں تک کہ مسلمانوں نے مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا، دوسر ادور وہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے حکم رسول کی نافرمانی کی سزا سارے لشکر کو دی۔نبی كریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تیر انداز اپنی جگہ پر رہیں اور کسی بھی حالت میں وہاں سے نہ ہٹیں جب تک کہ میں حکم نہ دوں لیکن صحابہ نے اجتہاد  کر کے پہاڑی چھوڑ دی جس کے نتیجے میں جنگ کا پانسہ کفار کے حق میں مکمل طور پر پلٹ گیا، تاہم یہ دوسرا دور مکمل نہیں ہوا تھا کہ کفار کی فوج نے اپنا سامان سمیٹا اور واپس چل دیے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ کفار فاتح رہے تھے تو فتح حاصل ہونے کی عربو ں میں چند نشانیاں تھیں جو پوری نہیں ہوئیں۔مثلاً (۱)فاتح مفتوحین کو تہس نہس کر کے میدان میں دو تین روز رہتے۔(۲) فاتح مال غنیمت جمع کرتے۔(۳) فاتحین مفتوحین میں سے جو ہاتھ لگتا اسے قیدی بنا لیتے(۴) فاتحین شہر پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کرتے۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ شہر بالکل قریب تھا اور مسلمان فوج زخموں سے چور احد میں پڑی تھی، اس کے باوجود وہ لوگ نہ تو مدینہ کی طرف گئے اور نہ مسلمانوں کو قیدی بنا کر ساتھ لے گئے۔([6])اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان نے خود ہی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ ہم فاتح نہیں ہیں بلکہ ویسے ہی جنگ ختم کر کے جا رہے ہیں۔دوسری جانب مُسلم لشکر کو لیجئے کہ پہلے دور میں وہ فاتح رہا لیکن دوسرے دور میں انتہائی نازک صورتِ حال رہی، شکست مکمل طور پر نظر آ رہی تھی لیکن چند جانبازوں نےنہ تو عَلم گرنے دیا اور نہ دشمن ان کے سپہ سالار تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔اس لحاظ سے جنگ میں مسلمانوں کی شکست ہو جانے کا فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ (۱) مسلمانوں نے آخر وقت تک میدان نہیں چھوڑا۔(۲) کفار مسلمانوں کی قیام گاہ اور خیموں تک نہ پہنچ سکے۔(۳)مسلمانوں کو واپس بھاگنے پر اور میدان چھوڑنے پر مجبور نہ کر سکے۔(۴)آخری وقت جنگ ختم ہو گئی، قریش احد چھوڑ کر چلے گئے لیکن مسلمان احد ہی میں موجود رہے۔ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی۔مزید برآں اگر یہ دیکھنا ہو کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی یا نہیں تو یہ دیکھیں کہ (۱)میدان جنگ میں آخری موقع پر قریش کا پلڑا بھاری تھا اور انہوں نے مسلمانوں کو بالکل مجبور کر دیا تھا۔(۲)مسلمانوں کے ستر کے لگ بھگ فوجی شہید ہو چکے تھے۔کفار نے مسلمانوں کی لاشوں کے مثلے کر دیے تھے۔ (۳)میدانِ احد میں کفار ہی فاتحانہ گھوم رہے تھے۔(۴)مسلمانوں میں سے بعض افراد مدینہ کی طرف بھاگ چکے تھے، تاہم مسلمانوں نے آخری دم تک نہ تو ہتھیار پھینکے اور نہ مغلوب ہوئے۔علامہ ابن قیم، مولانا صفی الرحمان مبارک پوری اور قاضی سلیمان منصور پوری نے اس پر یہی رائے دی ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ ہار جیت کی صورت میں نہیں ہوا تھا، بس فریقین میں لڑائی ہوئی اور فیصلہ کن مرحلہ نہیں آیا۔ البتہ کفار خوش تھے کہ ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے۔ فیصلہ نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابو سفیان نے جاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہمارا مقابلہ آئندہ سال بدر کے میدان میں ہو گا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ ٹھیک ہے،  ہم تیار ہیں۔([7])

قرآن کریم نے بھی اس غزوے پر یہی تبصرہ کرتے ہوئے فریقین کی جنگ کو غیر فیصلہ کن قرار دیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَا۬ئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ([8])

قوم کے پانے میں کمزور نہ پڑو۔ اگر تم کو تکلیف ہو رہی ہے تو ان کو بھی تمہاری طرح تکلیف ہو رہی ہےاور تم اللہ سے اس بات کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے۔

[1]           سیرة ابن ہشام: ۲/ ۴۴۔

[2]           احادیث  اور سیرت میں یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔دیكھیے، صحیح البخاری، حدیث نمبر:4043،  سیرة ابن ہشام:2/77۔

[3]           صحیح  مسلم، حدیث نمبر:1791۔

[4]           أیضاً، حدیث نمبر:1789۔

[5]           یہ تمام واقعات سیرت و تاریخ کی مختلف کتابوں میں مذکور ہیں جیسے دیکھتے ہیں ابن ہشام، ابن سعد، واقدی۔۔۔۔

[6]           پوری مدنی زندگی میں جتنے بھی غزوات ہوئے ان میں صرف ایک مسلمان قیدی ہوا

[7]           سیرة ابن ہشام غزوۂ احد:2/60۔

[8]           سورة آل عمران،3: ۱۰۴۔

Post a Comment

0 Comments