سيرت طيبه مدنی دور باب چہارم بعثت كے وقت یثرب كے حالات، مدنی ریاست كا قیام، فرضیت صوم ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE




مدنی دور 

باب چہارم

بعثت كے وقت یثرب كے حالات، مدنی ریاست كا قیام، فرضیت صوم   


 یثرب کے حالات اور نئے معاشرے کی تشکیل

یثرب (مدینہ منورہ)

یثرب مکہ مکرمہ سے تین سو میل کے فاصلے پر واقع ہے اور سطح سمندر سے چھ سو میٹر بلند ہے۔ اس کے شمال میں جبل احد ہے اور جنوب میں جبال عیر ہیں، اور یہ دونوں یثرب سے چار چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جب کہ شہر کے مشرق و مغرب میں بالترتیب جزیرۃ العرب اور حیرۃ الرواحم واقع ہیں۔ یہ سیاہ پتھروں کے علاقے ہیں جن کو آتشیں سیال مادہ نے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اور جو سخت نوکیلے اور میلوں کے مسافت میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یثرب میں چوبیس سے زیادہ پانی کے چشمے تھے۔ یثرب کا پانی ہلکا سرد اور شیریں تھا۔شہر کی فضا گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد ہوتی ہے۔ یثرب کی اراضی دو قسم کی ہے پہلی قسم کی سفید رنگ کی ریتلی زمین پر مشتمل ہے۔ یہ یثرب کا مشرقی علاقہ ہے۔یہاں کھجور، انگور اور انار بکثرت ہوتے ہیں۔ دوسری قسم سیاہ رنگ کی ہے جس میں گندم، جو، انار، نارنگی، رنگ برنگ کے پھول اور قسم قسم کی سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اراضی یثرب کے جنوب میں عوالی اور عقب میں واقع ہے۔ یثرب کے باشندے شروع ہی سے اہل مکہ کی نسبت حلیم،خلیق اور شیریں گفتار ہیں۔

یثرب میں یہودیوں کی آمد کے اسباب

یہ شہر قانیہ نامی شخص نے آباد کیا تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کی ساتویں پشت میں سے تھا۔ حجاز میں عمالقہ کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجی۔ عمالقہ کو شکست ہوئی اور ان کا بادشاہ قتل ہوگیا۔ جب یہ فوجی شام واپس گئے تو انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک قول کی خلاف ورزی پر حجاز واپس کر دیا گیا۔ اس طرح حجاز اور یثرب یہودیوں کا مسکن اور ان کی پناہ گاہ بن گئے۔ پہلی صدی عیسوی میں رومیوں اور یہودیوں میں زبردست جنگ ہوئی۔ شکست کے نتیجے میں یہودی دنیا بھر میں پھیل گئے۔ تاہم کئی قبائل حجاز ہی میں ٹھیرے رہے۔

یثرب کے مشہور بازار اور تجارت

اس زمانے میں یثرب کے کئی بازار تھے۔ انتہائی اہم بازار، بنو قینقاع کا تھا جو سونے اور چاندی کے زیورات اور مصنوعات اور کپڑے کا مرکز تھا۔ یہاں سوتی اور ریشمی کپڑے رنگین غالیچے اور منقش پردے بکثرت موجود تھے۔ عطر فروش انواع و اقسام کی خوشبوئیں فروخت کرتے تھے۔ یثرب کے بعض گھروں کے ساتھ باغ بھی تھے جہاں خوبصورت لان اور درختوں کے سا یوں میں مسندیں لگی ہوتی تھیں۔ پانی پینے کے لیے مٹی اور شیشے کے پیالے استعمال ہوتے تھے۔ مختلف قسم کے چراغوں کا استعمال ہوتا تھا۔ عورتیں مختلف قسم کے زیورات پہنتی تھیں جیسے کنگن، بازو بند، پازیب، کان کے بندے اور بالیاں، سونے یا یمنی دانوں کے ہار وغیرہ۔

روزگار

یثرب کی عورتیں دستکاری پر خاص توجہ دیتی تھیں۔سلائی کڑھائی اور بننا کاتنا ان کا مشغلہ تھا۔ یہ شہر ایسی جگہ پر واقع تھا جہاں گرمیوں اور جاڑوں میں تاجروں اور مسافروں کی آمدورفت جاری رہتی تھی اور اس شہر کا کاروبار خوب چمکتا تھا جب کہ یہود سب سے زیاد ہ اس کے ثمرات سمیٹ لیتے تھے۔ مردوں میں فنِ معماری، اینٹ بنانا،سنگ تراشی اور عمارت سازی کا فن ہجرت سے کافی پہلے عروج پر تھا۔ یثرب کے مکانات زیادہ تر پتھر کے بنے ہوتے تھے اور اکثر دو دو تین تین منزلہ ہوتے تھے۔ گلیاں اور بازار تنگ تھے لیکن غیر ملکی مصنوعات یہاں بکثرت ملتی تھیں۔

عمارات میں بڑے بڑے قلعے زیادہ مشہور تھے۔ یہودیوں کے تمام قبائل نے اپنے اپنے قلعے بنائے ہوئے تھے اور یہ قلعہ بند محلے اطم یا اطام کہلاتے تھے۔ دشمن کے حملے کے وقت لوگ یہاں  پناہ لیتے تھے۔ جب مرد لڑنے کے لیے جاتے تو خواتین، بچے، بوڑھے اور معذور ان عمارتوں میں پناہ گزیں ہو جاتے۔یہ قلعے اسٹور کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے جہاں غلے اور پھل جمع کرلیے جاتے تھے اور بوقت ضرورت یہاں اسلحہ اور ہتھیار بھی رکھے جاتے تھے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہودیوں نے ان اطام میں اپنی عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے بھی قائم کیے ہوئے تھے جہاں دینی کتب خانے بھی ہوتے تھے۔ یہودی سردار یہاں جمع ہوکر مختلف جلسے اور صلح مشورہ بھی کرتے تھے۔

بوقتِ بعثت  یثرب کے یہود کے حالات

یہودِیثرب کی معاشرتی حالت

قبل از ہجرت،  یثرب میں مقیم یہودیوں کے نمایاں خدوخال یہ تھے:

مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہودی اپنی اصل وضع قطع کھوچکے تھے اور ان میں عربیت اور عرب ثقافت کا رنگ نمایاں ہوچکا تھا۔ زبان، لباس، تہذیب و تمدن حتیٰ کہ ان کی اکثریت کے نام تک عربی ہوچکے تھے۔ بارہ یہودی قبیلے جو پورے حجاز میں آباد ہوئے تھے ان میں سے بنی زعوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ ان کے چند علماء کے علاوہ کوئی عبرانی زبان نہ جانتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلا م ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات میں عربی شاعروں سے علیحدہ کوئی امتیازی خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ عربوں کے ساتھ اس قدر میل جول ہوچکا تھا کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے سے شادیاں بھی کرلی تھیں۔ اس طرح یہودیوں اور عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، لیکن ان ساری باتوں کے باوجود  وہ عربوں میں خلط ملط نہ ہوئے تھے اور یہودی عصبیت پر شدت سے قائم تھے۔ ان کی وضع قطع ایک مصلحت کے تحت تھی تاکہ اس علاقے میں اجنبیت کا ا لزام نہ لگنے پائے۔ اسی لیے تو بعض مستشرقین یہاں تک کہہ بیٹھتے ہیں کہ یہ لوگ خاندانی یہودی نہ تھے بلکہ عربوں نے یہودی مذہب قبول کر لیا تھا، یا یہ کہ اکثر یہودی عربوں پر مشتمل تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے کبھی حجاز میں تبلیغی یا دعوتی اسلوب اختیار نہ کیا تھا۔ ان میں اس قدر اسرائیلی تعصب اور شدت پائی جاتی ہے کہ وہ کسی اور کو اپنے ساتھ برداشت ہی نہیں کرتےتھے اور اہل عرب کو وہ اُمی کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک ان پڑھ، جاہل، اچھوت اور وحشی تھا۔ ان کا عقیدہ اُس وقت بھی اور آج بھی یہی ہے کہ غیر اسرائیلی اُن انسانی حقوق کے قابل نہیں ہیں جو بنی اسرائیل کو حاصل ہیں بلکہ امیوں کا مال کھانا، ان کی عزت سے کھیلنا، ان پر جبر کرنا عین حق ہے۔ اس لیے سردارانِ عرب کے سوا وہ کسی کو اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ اپنے دین میں داخل کرکے ان کو برابر کا حصہ دار قرار دیں۔ تاریخی طور پر کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ کسی مشہور عرب قبیلے نے یہودیت قبول کرلی ہو، البتہ بعض افراد کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے یہودیت قبول کرلی تھی۔ اس لیے حجاز میں صدیوں تک رہنے کے باوجود یہودی مذہب نہیں پھیلا بلکہ ان کو محض اپنی نفسانی خواہشات، مال و دولت سمیٹے اور قبائلی تعصب اور غرور و فخر تک کام تھا۔ چند یہودی پروہت اور احبار تعویذ گنڈوں اور فال گیری کے نام پر اپنا کاروبار گرم کیے ہوئے تھے۔ اِن کی جادو گری کی وجہ سے عربوں میں مشہور تھا کہ یہ لوگ بڑے عالم فاضل ہیں۔

یہود ِ یثرب کی معاشی حالت

جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ یہودی مال و دولت سمیٹنے اور سودی کاروبار میں بڑے ماہر تھے اور دور حاضر تک وہ اپنی اس خصوصیت میں نمایاں ہیں۔ یثرب میں وہ انتہائی تجربہ کار تجار کی حیثیت رکھتے تھے۔ بیرونی دنیا سے ان کے تعلقات تھے اس لیے غلے کی درآمد اور کھجوروں کی برآمد میں ان کا بڑا حصہ تھا۔مرغ بانی اور ماہی گیری میں بھی ان کا حصہ تھا۔ پارچہ بافی،مے خانے اور سونے کے کاروبار بھی ان کے ہاتھ میں تھے۔ بنو قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار تھے۔ برتن بنانے کا ٹھیکہ بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ یہ تمام کاروباری سرگرمیاں  اپنی جگہ، یہودی سود خواری میں بہت نمایاں تھے اور اڑوس پڑوس کے عرب قبائل کو سود کے جال میں پھانس لیتے تھے۔ عرب شیخ اور رؤسا  اپنی امیری ثابت کرنے کے لیے ان سے قرض لے لیتے اور شیخی بھگارتے بھگارتے سود در سود کے چکروں میں اس طرح پھنس جاتے کہ زمینیں دے کر جان چھوٹتی۔ اس انداز سے انھوں نے یثرب کی معاش پر قبضہ کررکھا تھا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ کسی سے نہ بگاڑتے تھے بلکہ سب قبائل کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے لیکن اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی کے لیے قبائل کو آپس میں متحد بھی نہ ہونے دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر عرب قبائل اکٹھے ہوگئے تو سود سے ہتھیائی ہوئی ساری دولت، باغات اور زمینیں ان سے چھن جائیں گی۔ اس طرح پھوٹ ڈالنا اور جنگ کروانا (Divide and Rule) ان کے کاروباری مقاصد میں شامل تھا لیکن عربوں کو لڑا کر یہ یہودی ایک طرف نہ بیٹھ سکتے تھے بلکہ ان کو مجبور کیا جاتا تھا کہ کسی نہ کسی قبیلے کا ساتھ دیں۔اسی لیے بعاث کی جنگ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر، اوس کے حلیف تھے اور بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے۔

 یہودِ یثرب کی مذہبی حالت

یہ لوگ صدیوں سے یثرب میں آباد تھے اور نسلی عصبیت کی بنا پر انہوں نے اپنے مذہب کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی اور آخرت کے قائل تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو تسلیم کرتے تھے لیکن ۱۹ صدیاں گزر جانے کے بعد ان کے اندر محض نسلی عصبیت باقی رہ گئی تھی، اصل دین نہیں۔ ان کے عقائد اور معاملات دین سے یکسر مختلف تھے۔ ان کی تعلیمات مسخ ہوچکی تھیں اور معاملاتِ دین کی جگہ خواہشاتِ نفس نے لے لی تھی۔ توراۃ میں تحریف ہوچکی تھی۔ اللہ کے کلام کا اگر کچھ حصہ باقی بھی تھا تو اس کی اس طرح تاویلیں ہو چکی تھیں کہ اس کی روح مسخ ہو کر رہ گئی تھی۔ ہر خاص و عام کی اخلاقی، اعتقادی اور عملی حالت دین کے خلاف ہو چکی تھی۔ اور اگر کوئی مصلح ان میں پیدا ہوتا تو وہ اسے پکا دشمن سمجھتے تھے۔قرآن کریم نے خود کہا ہے کہ وہ انبیاء کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ بدعہدی، ظلم، ناانصافی، ہٹ دھرمی اورجاہلانہ تعصب کی بیماری ان میں بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ اپنے اصل دین کو قبول کرنے میں عار سمجھتے تھے۔

نسلی عصبیت اور بنی نوع انسان سے رویہ

ان کا یہ مذہبی عقیدہ بن چکا تھا کہ یہودی(بنی اسرائیل)اللہ کی مختار قوم ہیں۔ دنیا میں جینے کا حق صرف بنی اسرائیل کو ہے،باقی انسان ان کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اس لیے قانون انصاف کے مطابق معاملات صرف یہودیوں کے آپس ہی میں ضروری ہیں، غیر یہودیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔  اُن کو مارنا، ان کا مال کھانا، ان کو حقیر سمجھنا بالکل جائز ہے۔ اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان یہ اندھا امتیاز، عقیدہ کی طرح ان میں راسخ ہوچکا تھا مثلاً بائبل میں یہ امتیازی قانون بیان ہوا ہے کہ جو قرض ایک شخص نے دوسرے کو دیا ہو وہ سات سال گزرجانے پر ضرور معاف کردیا جائے مگر غیراسرائیلی سے تُواس کا مطالبہ کرسکتا ہے (استثناء۱۵:۳) ایک اور جگہ سود لینے سے منع کیا گیا ہے’’مگر تو اجنبی کو سود پر قرض دے تو دے، باپ بھائی کو سود پر قرض نہ دینا۔‘‘ (استثناء ۲۳:۲۰)

علماء یہود چھوٹے چھوٹے احکام اور جزئیات کا بڑا خیال رکھتے تھے اور انہی گتھیوں کو سلجھاتے رہتے تھے، مگر شرک جیسے اکبر الکبائر کی طرف ان کی نظر بالکل نہ جاتی تھی۔ نہ خود اس سے بچتے نہ عوام کو بچاتے بلکہ مشرکوں کی دوستی حمایت اور تائید پر فخر کرتے تھے۔ ان کی مذہبی خرافات میں یہ بھی شامل تھا کہ اشراف کے لیے قانون امتیازی تھا جب کہ عوام الناس کے لیے دوسرا۔ اگر کوئی بااثر آدمی چوری یا بےحیائی کا  کام کرتا  تو  تورات کے احکام بدل دیتے اور یا  تو اسے معاف کر دیتے یا کم تر سزا دیتے تھے۔ اور اگر کوئی کمزور آدمی ارتکابِ جرم کرتا تو اسے شریعت کے مطابق سخت سز ادیتے لیکن آہستہ آہستہ کمزور کے لیے بھی قانون بدل گئے۔ اس طرح کا ایک واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر پیش آیا تھا جس کا ذکر آمدہ صفحات میں آئے گا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور ناپاک اور حرام چیزوں کو حلال کر لیا۔

آمدِ رسول ﷺکے وقت یہودیوں کا رویہ

 رسول اللہ ﷺ كی دنیا میں تشریف آوری سے قبل یہودیوں میں یہ چرچا عام تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے اور وہ بے چینی سے اس نبی کے منتظر تھے تاکہ اس کی تعلیمات پر عمل کریں اور  دین کی تبلیغ میں اس کے ساتھ چلیں، بلکہ دعائیں کرتے تھے کہ خدایا اس نبی کو بھیج تاکہ کفار مغلوب ہوں اور پھر ہمارا  دورِ عروج شروع ہو۔ اوس و خزرج کے قبول اسلام کا بنیادی سبب ہی شاید یہی بنا کہ یہود آئے دن کہا کرتے تھے کہ ایک نبی آئے گا ہم اس کے ساتھ مل کر کفار کو ملیامیٹ کر دیں گے، ہمارے انبیا نے اس نبی کی آمد کی خبر دی ہے۔ چنانچہ یثرب (مدینہ) میں یہ بات عام ہوگئی تھی کہ نبی آئے گا اسی لیے جب انصار کو نبی کی آمد کی اطلاع ملی توانھوں نے سوچا ایسا نہ ہو یہود ہم پر بازی لے جائیں، ہم خود اس نبی پر ایمان لے آتے ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی جو آنے والے نبی کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، جب وہ آگیا تو اس کے بدترین دشمن بن گئے۔ اُم المؤمنین حضرت صفیہ ایک یہودی عالم کی بیٹی اور ایک کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تومیرا باپ اور چچا دونوں آپ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی پھر جب گھر واپس آئے تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا۔ چچا نے کہا: کیا وا قعی یہ وہی نبی ہے جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد نے جواب دیا: اللہ کی قسم بالکل وہی ہے۔ چچا نے کہا کیا آپ کو یقین ہے؟ والد نے کہا ہاں۔ چچا نے کہا پھر کیا سوچا؟ والد نے جواب دیا: جب تک رگوں میں خون دوڑ  رہا ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اسے کام نہ کرنے دوں گا۔

اوس و خزرج اور مشرکین

یہ دونوں قبائل یمن کے قبیلہ قحطان کے دو بھائیوں کے نام سے مشہور ہیں جو قبیلہ ازد کی ایک شاخ ہے۔ یہودی چونکہ پہلے سے یثرب میں آباد ہوچکے تھے اس لیے شاداب ترین پھل پھول اورباغات والی سرزمین ان کے قبضے میں تھی۔ وہاں کے تمام میٹھے پانیوں پر بھی انہی کا قبضہ تھا، اس لیے اوس و خزرج کو مجبوراً مدینہ کے کم زرخیز اور ریگستان علاقوں میں رہنا پڑا۔

اوس و خزرج کی نقل مکانی کے اسباب

ان قبائل کی یثرب آمد کے اسباب کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یمن سے نقل مکانی کی وجہ سیلِ عَرم کا مشہور سیلاب ہے جو مآرب بند کی تباہی سے آیا تھا،جب کہ بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ جب سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کی وجہ سے بحیرۂ احمر پر رومیوں کا غلبہ ہوگیا تو اس قبیلہ کو وہاں سے کوچ کرنا پڑا۔ ان لوگوں کی اکثریت مآرب ڈیم کے اثرات  سے باہر رہتی تھی۔ الغرض وجہ کوئی بھی ہو،  قبیلہ ازد کے جو لوگ یثرب میں جاکر آباد ہوئے،  وہ اوس و خزرج کے نام سے مشہور ہوئے۔

اوس و خزرج کے محلے

قبیلہ اوس نے عوالی کے علاقے میں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے ساتھ سکونت اختیار کی اور قبیلہ خزرج نے مدینہ کے زیریں علاقے میں بنو قینقاع کی ہمسائیگی میں رہائش اختیار کی۔ جس علاقے میں اوس کے لوگ آباد ہوئے وہ اس سے زیاہ زرخیز تھا جہاں خزرج کو جگہ ملی۔

جب یہ خاندان یثرب آئے تو یہود وہاں بااثر اور صاحب اقتدار تھے۔ آس پاس کے مکانات ان کے قبضہ میں تھے اور وہ دولت و مال سے مالا مال تھے۔ چونکہ آل اولاد کی کثرت سے ۲۰، ۲۱ قبیلے بن گئے تھے اس لیے دور دور تک بستیاں بسا لی تھیں۔ اوس، خزرج کچھ زمانہ تک ان سے الگ رہے لیکن حالات دیکھتے ہوئے مجبوراً ان کے حلیف بن گئے۔ اوس بنو قریظہ اور بنونضیر کے ساتھ تھے جب کہ خزرج بنو قینقاع کے حلیف تھے۔

جس زمانے میں یہود کو عروج حاصل تھا اور اوس و خزرج محکوم تھے تو یہودیوں کے ایک حکمران فطیون نے حکم جاری کیا کہ جو بھی دوشیزہ لڑکی بیاہی جائے، سہاگ رات میرے پاس رہے گی اور پھر اپنے شوہر کے پاس جائے گی۔ اس کی عیاشی، بدکرداری اور بدمعاشی کے آگے یہود نے سر تسلیم خم کر دیا تھا لیکن دیگر قبائل اس بدمعاشی کو قبول نہیں کرسکے۔ اس زمانے میں اوس کا ایک شخص مالک بن عجلان تھا۔ اس کی ہمشیرہ کی شادی ہوئی تو وہ عین شادی کے روز ایسی جگہ سے اپنے بھائی کے سامنے سے بے پردہ گزری جہاں بھائی ایک مجلس میں بیٹھا تھا۔مالک کو بہن پر بڑا غصہ آیا اور غیرت میں بہن کے پاس باز پرس کے لیے گیا۔ بہن نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں کل جب میں فطیون کے پاس جاؤں گی، اس پر تمھیں غیرت نہ آئے گی۔ دوسرے دن حسبِ دستور مالک کی بہن جب دلہن بن کر فطیون کی خلوت گاہ میں گئی تو مالک بھی زنانہ کپڑوں میں سہیلیوں کی طرح ساتھ گیا اور موقع پاکر فطیون کو قتل کردیا۔ اب جان بچانے کے لیے مالک نے شام جانے کا قصد کیا جہاں غسانیوں کی حکومت تھی اور ابو جبلہ حکمران تھا۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو ایک بڑی فوج لے کر یثرب پر چڑھائی کے لیے چل پڑا۔ اوس و خزرج کے سربراہوں کو بلاکر خلعت اور انعامات دیے، اس  ماحول میں یہودیوں کے سرداروں کو بھی انعامات دینے کے بہانے بلایا اور ایک ایک کر کے سب کو قتل کراتا گیا۔ اس طرح یہود کا زور ٹوٹ گیا اور اوس وخزرج کو قوت ملی۔ انھوں نے یثرب میں بہت سے چھوٹے چھوٹے قلعے بنالیے اور دونوں قبیلے باہمی اتفاق سے رہنے لگے لیکن پھر عربوں کی فطرت کے مطابق ان کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی اور سخت خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔

اوس و خزرج اور یہود کی پیش گوئیاں

یہ دونوں قبائل عقائد کے لحاظ سے بت پرست تھے جنھیں ہم مشرکین کے گروہ میں شامل کرتے ہیں لیکن ایک عرصہ سے اہلِ کتاب کے پڑوس نے ان کو اس بات سے روشناس کرا دیا تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا وجود ہے اور آسمانی کتابیں اور پیغمبر آتے ہیں۔ اب وہ یہود سے رقابت اور عناد کے باوجود ان کی باتوں پر کان دھرتے تھے اور ان کے علم و فضل، جادو ٹونا اور منتر کے قائل ہوچکے تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یہود نے یثرب میں تعلیمی ادارے قائم کیے تھے جہاں تورات کی تعلیم دی جاتی تھی، ان اداروں کو بیت المدارس کہا جاتا تھا۔ اوس و خزرج جہالت کی وجہ سے یہود کے بے بنیاد دینی و علمی تفوق کے قائل ہوچکے تھے۔ ان میں سے جس شخص کی اولاد زندہ نہ رہتی تھی وہ منت مانتا کہ بچہ زندہ رہے گا تو اسے یہودی بنا دے گا۔


Post a Comment

0 Comments