سيرت طيبه فرضیت روزہ ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

فرضیت روزہ

نبی کریم ﷺ نے ارکان اسلام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: بنی الاسلام علی خمس۔۔۔۔الخ

اس لحاظ سے روزہ چوتھا رکن اسلام ہے۔سنہ۲ھ میں روزہ باقاعدہ طور پر مسلمانوں پر فرض ہوا، لیکن روزہ رکھنے کا موجودہ طریقہ اس وقت نافذ نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے احکام بھی باقی ارکان کی طرح بتدریج نازل ہوئے۔خود نبی کریمﷺ  مکی زندگی میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے،۔ جب  ماہ رمضان کی تخصیص کر دی گئی توآپؐ  نے ۹مرتبہ رمضان المبارک کے پورے مہینے کے فرض روزے رکھے۔

شروع شروع میں قرآن کریم میں روزوں کی ترغیب دی گئی اور فرمایا گیا کہ روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے اور جو روزہ نہ رکھنا چاہے وہ مسکین کو کھانا کھلا دے، اس طرح بعض لوگ روزہ رکھتے تھے اور بعض نہ رکھ کر فدیہ دے دیتے تھے۔فرمایا: فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّھ۫ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ([1])

 لیکن جب ایک ماحول بن گیا اور اکثر لوگوں نے اس فریضہ پر عمل شروع کر دیا تو سورۃ البقرہ میں روزے کے احکام نازل ہوئے۔آغاز میں سابقہ شریعتوں کی طرح روزہ رکھنا ایک مشکل کام تھا اور اس میں بہت شدت تھی۔روزہ چوبیس گھنٹے رکھنا ہوتا تھا یعنی مغرب کے بعد روزہ دار کے لیے اتنا ہی وقت ہوتا تھا کہ یا تو  وہ نماز عشا  پڑھ لے یا سو جائے، اگر یہ دونوں یا ان میں سے ایک کام بھی  کر لیا تو اگلا روزہ شروع ہو جاتا تھا جو اگلے روز مغرب تک ہوتا تھا، نیز اس دوران میں كھانا پینا اور مباشرت وغیرہ منع ہو جاتی تھی، اور اگر رات مغرب كے بعد آنكھ لگ گئی یا نماز عشاء پڑھ لی تو روزہ شروع ہوجاتاتھا۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب ‘‘یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ([2])  کا حکم نازل ہوا تو لوگ عشاء پڑھ لیتے تھے اور پھر ان پر کھانا پینا اور عورتیں حرام ہو جاتی تھیں،یہاں تک کہ آئندہ شام تک روزہ رکھتے۔ایک آدمی نے خیانت کر لی اور عشاء کے بعد مجامعت کر بیٹھا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت، آسانی  اور فائدے کی خاطر یہ رخصت دی اور فرمایا: عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ ([3])

اسی طرح حضرت براءؓ کی روایت کے مطابق بعض اوقات لوگوں کو  افطاری کیے بغیر ہی اونگھ یا نیند آنے کی وجہ سے کچھ کھائے پیے بغیر چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنا پڑتا تھا۔قیس بن صرمہ انصاری افطاری کے وقت گھر لوٹے اور بیوی سے کہا کچھ کھانے کے لیے ہے؟ کہنے لگیں میں آپ کے لیے  کچھ لے آتی ہوں۔ چونکہ قیس سارا دن کھیتی باڑی کرتے تھے اس لیے تھکاوٹ کے باعث نیند آ گئی۔ جب اہلیہ واپس آئیں تو دیکھا کہ وہ سو ئے پڑے ہیں، کہنے لگیں یہ تو بربادی ہو گئی(اس لیے کہ سونے سے اگلا روزہ شروع ہو جاتا تھا) اور قیس نے اسی طرح اگلا روزہ ركھ لیا، جب اگلے روز دوپہر کا وقت ہوا تو ان کو بھوک و پیاس سے غشی کے دورے پڑنے لگے،یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو رخصت والی آیات نازل ہوئیں۔([4])

اسی طرح دیگر کئی صحابہ سے سہو ہوا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حالات بیان کیے، اس کے بعد موجودہ طریقہ کار سے متعلق احکام نازل ہوئے۔


 

 

 

 

 

باب پنجم

كفار كے نو زائدہ  مسلم ریاست پر پے در پے حملے، اسلامی قانون سازی صلح حدیبیہ، كفار قریش كا مسلم قوت كو تسلیم كرنا


غزوہ بدر

بدرمدینہ منورہ سے تقریباً ۸۰کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔شہر کے وسط میں میدان بدر ابھی تک موجود ہے، یہاں  قبرستان بھی ہے۔ گیٹ کے بالکل سامنے مسجد بدر ہے جو سعودی عرب کی دیگر مساجد کی طرح خوبصورت، کشادہ اور قیمتی قالینوں سے مزین ہے۔آج کل مدینہ سے جدہ جانے والی سڑک یہاں قریب ہی سے گزرتی ہے لیکن یہ علاقہ انتہائی اونچے اور خشک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور سڑک نشیب میں  وادیوں سے بل كھاتے ہوئے گزرتی ہے۔

تاریخ میں جس دن کو حق و باطل کے سب سے بڑے اور عظیم معرکہ کا نام دیا گیا ہے وہ اسی علاقے میں رونما ہوا تھا اگرچہ اس معرکہ میں صرف ۳۱۳ لوگ شامل تھے لیکن اہمیت کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے اہم جنگ تھی۔غزوہ بدر کی اسلامی تاریخ میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے بدر میں شرکت کی  اس پر  منافقت کا شائبہ تک نہیں کیا جا سکتا۔بدری ہونا ایک اعزاز تھا۔جو حضرات بدر میں شرکت نہ کر سکے وہ اپنے آپ کو بدقسمت خیال کرتے تھے۔

 

غزوہ بدر کے اسباب

قریش نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو مسلمان بے سروسامانی کی حالت میں گھر بار، مال و اسباب، عزیز رشتہ دار چھوڑ کر یثرب آ بسے لیکن قریش نے انہیں وہاں بھی سکون کا سانس نہ لینے دیا۔ یہود اور مشرکین کو خطوط لکھے جن میں عبداللہ بن اُبَی بھی شامل تھا،کہ اس فتنے کو ختم کر و   ورنہ ہم آ کر تمہیں بھی محمد کے ساتھ قتل کر دیں گے(نعوذ باللہ)۔)[5](قریش کے لوگوں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی چراہ گاہ پر حملہ بھی کیا۔حضرت سعد بن معاذ، امیہ بن خلف کے پرانے دوست تھے، عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچے تو اس کے مہمان ہوئے۔یہ دونوں طواف کے لیے نکلے تو وہاں ابو جہل سے سابقہ پیش آیا۔اس نے سعد بن معاذ سے کہا: خدا کی قسم! اگر تم امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جاتے۔اس پر حضرت سعد نے فرمایا: ’’سنو! اگر تو نے مجھے اس سے روکا تو میں تجھے اس چیز سے روکوں گا جو تیرے لیے سخت تکلیف دہ ہوگی۔‘‘ ان کا اشارہ شام اور مکہ کے درمیان اس شاہراہ کی طرف تھا جہاں سے قریش کے قافلے گزرتے تھے۔([6])

اس کے علاوہ بھی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔جب کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہوں پر چھاپہ مارا اور مویشی لے کر بھاگ گیا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیچھے۷۰صحابہ کی جماعت بھیجی لیکن وہ بچ نکلا۔

غزوہ بدر کا ایک اور سبب یہ تھا کہ رجب ۲ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ۱۲ اصحاب پر مشتمل ایک جماعت وادی نحلہ بھیجی جس نے قریش کی نقل و حرکت کا پتہ لگانا تھا۔حرام مہینہ ہونے کی وجہ سے اہل  عرب رجب میں جنگ نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب  وہاں سے قریش کا قافلہ گزرا تو صحابہ نے اجتہاد کیا کہ اگر ان کو روکیں اور لڑائی ہو تو حرام مہینہ کا تقدس پامال ہو گا اور اگر آج ان کو جانے دیں تو کل تک یہ دور نکل جائیں گے،اس پر فیصلہ ہوا کہ حملہ کرتے ہیں۔اس حملہ میں ایک تیر عمرو بن حضرمی کو جا لگا اور اس کا کام تمام ہو گیا جب کہ عثمان اور حکیم کو زندہ پکڑ لیا گیا۔اس قافلہ میں نوفل بھی شامل تھا جو بھاگ گیا۔جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے پر سرزنش کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینہ میں جنگ کی اجازت نہیں دی تھی اور کسی قسم کا سامان (مال غنیمت)نہ لیا۔دونوں قیدیوں کو رہا کر دیا اور مقتول کے وارثوں کو دیت ادا کر دی۔([7])

ان حالات سے اس کشمکش کا اندازہ ہوتا ہے جو قریش اور مسلمانوں کے درمیان جاری تھی۔قریش،مدینہ پر ہر لمحہ حملہ کرنے کے لیے تیار تھے۔مسلمان حضرت سعد کے فیصلے کے مطابق مکہ والوں کا معاشی راستہ بند کرنا چاہتے تھے اور شام سے مکہ آنے جانے والے قافلوں پر نظر رکھتے تھے۔ادھر عمرو بن حضرمی کے قتل کے بعد اہل مكہ کو حملے کا مزید بہانہ  مل گیا،حالانکہ اس غلطی کی تلافی بھی ہو چکی تھی۔

۱۲رمضان، ۲ھ کو رسول اللہ ﷺ ۳۱۳ جانثاروں کی جماعت کے ساتھ شاہراہ شام کی طرف نکلے تاکہ اس قافلے کا راستہ روک سکیں جس کا تمام منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جانے والا تھا۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا۔اس کو جب مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہو اتو اس نے تیز رفتار قاصد مکہ بھیجا کہ جلدی سے آؤ، مسلمان ہمارے اوپر حملے کی تیاری کر چکے ہیں۔یہ سن کر مکہ میں جنگ کا اعلان ہو گیا، کیونکہ شام سے آنے والے قافلے میں ایک ہزار لدے ہوئے اونٹ تھے جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار یعنی دوسو باسٹھ کلو گرام سونے کی مالیت کا سامان تھا اور اس قافلے کے ساتھ صرف چالیس آدمی تھے۔

شام سے قافلہ آ رہا تھا اور مکہ سے ایک ہزار کی تعداد میں قریش اپنے تمام سرداروں کے ساتھ نکل پڑے۔ان کے پاس ایک سو گھوڑے، چھ سو زرہیں اور کثیر تعداد میں اونٹ تھے۔ہر روز ۹ یا دس اونٹ کھانے کے لیے ذبح کیے جاتے تھے۔ڈھول باجے اور ناچنے گانے والیاں بھی ساتھ تھیں اور شراب کی کثرت تھی۔

جب مکی فوج وادی عسفان سے ہوتی ہوئی جحفہ پہنچی تو ابو سفیان کا پیغام ملا کہ میں نے راستہ بدل لیا ہے اور بحفاظت نکل آیا ہوں،اب واپس آ جاؤ۔ مگرمکی لشکر میں اختلاف پیدا ہو گیا۔حکیم بن حزام نے دوڑ دھوپ شروع کی کہ جنگ نہ ہو۔عتبہ بن ربیعہ جو مکی لشکر کا سپہ سالار تھا اس کی رائے بھی یہی تھی۔فیصلہ ہونے ہی والا تھا کہ ابوجہل درمیان میں کود پڑا اور کہا یہ نہیں ہوسکتا، آج لڑائی ضرور ہو گی اور عتبہ کو طعنہ دیا کہ تمہارا بیٹا ابو حذیفہ مسلمانوں کی طرف سے لڑنے آ رہا ہے،اس لیے تیرا سینہ سوج گیا ہے۔عتبہ یہ طعنہ برداشت نہ کر سکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

جنگ سے قبل ابو جہل نے دعا کی کہ اے اللہ ہم میں سے جو فریق قطع رحمی کرنے والا ہے، غلط کار ہے، اسے آج ختم کر دے اور اے اللہ جو فریق تیرا محبوب ہے، اس کی مدد فرما۔

حق و باطل کا یہ معرکہ بالآخر بدر کے مقام پر برپا ہوا۔اس سے قبل شعبا ن ۲ھ میں اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت دینے کے ساتھ دو گروہوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مقابلے کا اشارہ دے دیا تھا،ایک شام سے آنے والا قافلہ اور دوسری مکہ سے آنے والی فوج۔بدر میں ۳۱۳ نہتے مسلمان تھے جن کے پاس  دو یا تین گھوڑےاور سفر كے لیے ستر اونٹ تھے، جن پر باری باری سوار ہو كر  وہ سفر كرتے تھے۔اس جنگ میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے واضح فتح نصیب فرمائی۔مسلمانوں کے ۱۴مجاہدین شہید ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے جب کہ ۷۰ کفار واصل جہنم ہوئے جن میں سے اکثر سردارانِ قریش تھے۔ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید، ابو البختری، زمعہ بن الاسود، عاص بن ہشام۔۔۔سب کے سب مارے گئے۔رسول اللہ ﷺ نے تمام کفار کی لاشوں کو بدر کے قریب ایک گڑھے میں ڈلوا دیا۔

 اس غزوہ میں کامیابی سے اسلامی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔تمام علاقے میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی  اور ارد گرد کے قبیلوں نے مسلمانوں کی قوت کا اعتراف کر لیا۔مسلمان فاتحانہ انداز میں واپس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کی دعا بھی قبول کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی واضح مدد فرمائی۔فرشتے خود اس جنگ میں شریک ہوئے۔قرآن کریم میں اس جنگ پر بھر پور تبصرہ موجود ہے۔ولقد نصرکم اللہ ببدر و انتم اذلہ۔۔۔۔۔۔الخ([8])

غزوہ بدر کی اہمیت اور ایمان کا امتحان

غزوہ بدر کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں خونی رشتے اور ایمانی رشتے کا امتحان تھا۔دونوں طرف ایک ہی قبیلہ کے لوگ تھے اور وہ بھی آپس میں ملاقاتیں کرتے تھے،بات چیت کرتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔عقیدے کے اختلاف کی بنا پر ایک بھائی دو سال پہلے مکہ چھوڑ آیا تھا، دوسرا مکہ ہی میں تھا۔دو سال سے بچھڑے رشتے دار ملے مگر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے۔ ابو حذیفہؓ کے مدمقابل ان کا والد عتبہ  تھا۔ابو بکرؓ کے مد مقابل ان کا بیٹا تھا، عمر ؓ کے مد مقابل ان کا ماموں تھا۔مصعب ؓ کے مقابل ان کا بھائی تھا۔جب جنگ کا آغاز ہوا تو مبارزت کے لیے رسول اللہ ﷺ نے تین انصاریوں  کو بھیجا جس پر عتبہ نے کہا: اے محمد یہ کون ہیں، ہمارے مقابلے میں ہمارے ہی لوگوں (رشتہ داروں) کو بھیجو۔چنانچہ عتبہ کے مقابلے میں حمزہ، شیبہ کے مقابلے میں ابو عبیدہ اور ولید کے مقابلے میں علیؓ کو بھیجا گیا۔یہ نہایت  کڑا امتحان تھا   لیکن بالآخر خون کے رشتوں کی کشش کے مقابلے میں عقیدہ اور نظریہ حکمران رہااور مسلمان اس آزمائش سے ہر لحاظ سے کامیاب نکلے۔

سیدہ رقیّہ بنتِ رسول ﷺ کی وفات

نبی کریم ﷺ ۱۲ رمضان ۲ھ کو بدر  کی جانب روانہ ہوئے تو اس وقت سیدہ رقیہ چیچک کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ آپ کی عمر مبارک ۲۱ برس تھی اور عبداللہ آپ کی گود میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ رقیہ کی تیمارداری کی خاطر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس رہنے کا حکم دیا اس لیے سیدنا عثمان غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔ ادھر زید بن حارثہ فتح کی نوید لے کر مدینہ پہنچے تو سیدہ رقیہ کی تدفین ہو رہی تھی۔

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا آپ ؐ کی دوسری صاحبزادی تھیں سب سے بڑی سیدہ زینب تھیں اور رقیہ سے چھوٹی سیدہ ام کلثوم اور سب سے چھوٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا تھیں۔ سیدہ رقیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو ہجرتیں کیں، ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ۔ جب سیدہ زینب اور سیدہ رقیہ سن زواج کو پہنچیں تو پیارے چچا ابو طالب کے مشورے سے نبی کریم ﷺ نے اپنے ہی خاندان کے دو نوجوانوں عتبہ اور عتیبہ سے ان کا رشتہ طے کر دیا لیكن رخصتی صرف سیدہ زینب كی ہوئی تھی۔ یہ دونوں ابو لہب کے بیٹے تھے۔ جب آپؐ  نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے قریش آپ کے دشمن ہوئے چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ عتبہ اور عتیبہ اور ابوالعاص تینوں محمد (ﷺ) کی بیٹیوں کو طلاق دے دیں تا کہ ان کو اپنی پڑ جائے اور اپنے ہی غم میں گھلتے رہیں۔ اس موقع پر ابوالعاص نے جو زینب کے شوہر اور ان کی خالہ کے بیٹے تھے، مشرک ہونے کے باوجود، طلاق دینے سے انکار کر دیا مگر ابو لہب کے دونوں بیٹوں نے رقیہ اور ام کلثوم کو طلاق دے دی۔ربّ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خاندان قریش کا حسین و جمیل، شریف، باوقار، عزت دار، دنیا میں جنت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والا پاک طینت اور کاملُ الحیاء والایمان سیدنا عثمان کے ساتھ نورِ رسالت کی کرنوں کا جوڑ بنے گا، اس طرح سیدنا عثمان سے سیدہ رقیہ کا رشتہ ہو گیا۔ شادی کے بعد ہی سیدنا عثمان اور سیدہ رقیہ دونوں حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ دونوں نے حبشہ کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کی۔ سیدہ رقیہ کےہاں ایک صاحبزادے عبداللہ پیدا ہوئے  مگر چھوٹی عمر میں وفات پا گئے۔([9])

صدقۂ فطر اور نماز عیدُالفطر

یہ پہلا رمضان تھا جب مسلمانوں پر پورےمہینے کے روزے فرض ہوئے۔  یعنی ۲۸ رمضان ۲ھ کو  انہیں واجب قرار دیا گیا۔ بخاری اور مسلم نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں زکوۃ الفطر کو فرض کیا ([10]) حدیث میں فرض کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے مراد واجب ہے۔ اور صدقہ فطر عیدالفطر سے پہلے نکالا جاتا ہے۔ اگر  عید کے بعد ادا کیا جائے تو وہ ادا نہیں ہوتا۔  اس سال اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو عیدین جیسے دو دن نصیب فرمائے جن کی خوشی ہر سال، ہر مسلمان مناتا ہے۔ عیدالفطر کی  نماز بھی اسی وقت واجب قرار دی گئی۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ سال میں دو دن خوشیاں مناتے اور کھیلتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دونوں کے بجائے بہتر دن عطا فرمائے ہیں یعنی  عیدُ الفطر اور عیدُالاضحیٰ۔)[11] (یکم شوال ۲ ھ کو مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی قیادت میں پہلی عید منائی۔ (رمضان ۲ھ میں آپؐ کی عمر مبارک ۵۴ سال ۶ ماہ اور ۲۰ دن تھی جب آپؐ نے اپنے صحابہ کے ساتھ پہلی بار نماز عیدادا کی تھی)۔ اس کے بعد آج تک مسلمان تواتر کے ساتھ سال میں دو عیدیں مناتے ہیں۔ عیدُ الفطر رمضان کے روزوں کے اختتام پر اور عیدُالاضحیٰ حضرت ابراہیم  کی سنت کے احیاءکے لیے یادگار کے طور پر  منائی جاتی ہے۔

اس لحاظ سے یہ اہم ترین واقعات تھے یعنی غزوہ بدر میں فتح عظیم، پھر زکاۃ اور صدقہ فطر  اور اس کے بعد عیدین کی خوشیاں۔ اس کے علاوہ اسی سال شوال میں حضرت فاطمہ کی شادی یعنی رخصتی ہوئی نیز نبی کریم ﷺ کی زیرِ قیادت غزوہ بنی سلیم، غزوہ  بنی قینقاع اور  غزوہ سویق بھی ہوا، جب کہ محرم ۳ھ میں آپؐ خود صحابہ کے ساتھ  غطفان میں بنی ثعلبہ اور بنی محارب كی طرف فوجی قوت كے اظہار کے لیے نکلے تا کہ یہ لوگ مدینہ کی نوزائیدہ ریاست کے لیے کوئی  بڑا خطرہ بننے کی کوشش نہ کریں، چنانچہ وہ لوگ جو مدینہ پہ حملہ کرنا چاہتے تھے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے نکاح

آپ کی عمر ِمبارک ۵۵ سال اور پانچ ماہ تھی جب آپ نے حضرت حفصہ سے نکاح کیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بعثت سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی خفیسؓ بن حذافہ سے ہوئی تھی اور دونوں  نے ہجرت مدینہ کی تھی۔ خفیسؓ غزوہ بدر میں شدید زخمی ہو گئےتھے اور انہی زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت پائی۔ خفیسؓ کی کوئی اولاد سیدہ حفصہ سے نہ تھی۔ جب عدّت گزر گئی تو حضرت عمر کو ان کے نکاح کی فکر لاحق ہوئی۔ اتفاق سے حضرت  عثمان غنیؓ کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ بھی وفات پا گئی تھیں۔ انہوں نے حضرت عثمان سے فرمایا کہ میری بیٹی بھی بیوہ ہو گئی ہے اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عثمان خود اکیلے اور انتہائی پریشان تھے۔ حضرت عمرؓ  کو ان سے بہتر کوئی فرد نظر نہ آیا، دوسرا یہ کہ وہ عثمان کا غم بھی ہلکا کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت عثمان  نے پہلے کوئی جواب نہ دیا، پھر کہا عمر میرا ابھی ارادہ نہیں۔ اس طرح حضرت عمر نے حضرت ابوبکر صدیق﷜ سے کہا کہ آپ شادی کر لیجیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی معذرت کر لی۔ یہ بات حضرت عمر پر  بہت گراں گزری کہ معاشرے کے صالح ترین دونوں  افراد نے انکار کر دیا ہے۔ حضرت عمر ؓکی عادتِ مبارکہ تھی کہ کوئی  بات چھپا کر نہ رکھتے تھے، انہوں نے حضورﷺ سے دونوں کا شکوہ کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

یتزوج حفصۃ من ھو خیر من عثمان و یتزوج عثمان من ھی خیر من حفصہ([12])

)حفصہ سے وہ شخص شادی کرے گا جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان اس خاتون سے شادی کرے گا  جو حفصہ سے بہتر ہے۔(

چنانچہ  خود نبی کریم ﷺ نے حضرت حفصہ سے نکاح کر لیا اور حضرت عثمان ﷜ سے اپنی تیسرے نمبر کی بیٹی  سیدہ ام کلثوم  کا نکاح کر دیا۔ اس طرح حضرت عثمان کا لقب ذوالنورین پڑ  گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر﷜ کو بھی اپنا سسر بننے کی سعادت بخشی جب کہ اس سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق کو سسر بنا کر ان کے لیے سعادتِ عظیمہ کا دروازہ کھولا تھا۔ اس طرح سیدنا عمر بن الخطاب  رضی اللہ عنہ کے سارے غم جاتے رہے اور سیدہ حفصہ جو شہیدِ بدر کی بیوہ تھیں، انہیں جہانوں کا سب سے اعلیٰ و افضل ساتھی نصیب ہوا۔

سیدہ  حفصہ کو ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک طلاق دے دی تھی لیکن سیدنا عمر ﷜ اس پر اس قدر روئے اور اللہ کے  آگے گڑگڑائے کہ دوسرے ہی روز جبریل تشریف  لائے اور  رسول اللہ ﷺ سے فرمایا یہ خاتون بہت زیادہ نماز پڑھنے والی اور روزے رکھنے والی ہے، یعنی عابدہ ہے اس سے رجوع کیجیے)[13](،  یہ آپ کی جنت  میں بھی بیوی ہو گی۔ سیدہ حفصہ  حافظۂ قرآن تھیں، عالمہ تھیں، کئی احادیث کی راویہ تھیں، صاحب الرائے تھیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓکے دور میں لکھا جانے والا قرآن کا نسخہ شہادتِ عمر کے بعد سیدہ حفصہ کے پاس آ گیا تھا۔ انہوں نے سیدنا عثمان کو دیا تھا اور حضرت عثمان نے اس نسخے کی کاپیاں اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجی تھیں۔ حضرت حفصہ نے مدینہ میں وفات پائی۔

[1]           سورۃ البقرۃ: ۱۸۴۔

[2]           سورۃ البقرۃ: ۱۸۳۔

[3]           سورة البقرة:۱۸۷۔

[4]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۸۱۶۔

[5]           ابو داؤد،السنن، باب ما جاء من خبر بنی النضیر، رقم الحدیث: ۳۰۰۴۰

[6]           صحیح البخاری، حدیث نمبر :3632۔

[7]           سیرة ابن ہشام:۵۹۰/۱

[8]           غزوہ بدر کا تفصیلی ذکر سورہ انفال میں موجود ہے۔

[9]           طبقات ابن سعد، ذکر سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ۔

[10]         صحیح البخاری،حدیث نمبر: ۱۵۰۳، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۹۸۴۔

[11]         سنن ابو داؤد،حدیث نمبر: ۱۱۳۴۔

[12]         المقريزي (المتوفى: ۸۴۵هـ)، إمتاع الأسماع:۶/۳۶، دار الكتب العلمية - بيروت۔

[13]         ایضاً۔

Post a Comment

0 Comments