سيرت طيبه مکہ سے باہر دعوت اسلام ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




مکہ سے باہر دعوت اسلام

نبی کریم ﷺ قریش مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر مکہ سے باہر قبائل کو دعوت دینے کے لیے نکلے تو سب سے پہلے طائف تشریف لے گئے یہ سن ۱۰ نبوی شوال کا واقعہ ہے۔ طائف مکہ کی نسبت ٹھنڈا اور زیادہ پہاڑی علاقہ ہے مکہ مکرمہ سے  آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ پیدل سفر کیا۔ راستے میں جو بھی ملتا اس کو دین اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے آپ کی دعوت قبول نہ کی۔

طائف کی سرداری اس وقت عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکوں عبدیالیل، مسعود اور حبیب کے ہاتھ میں تھی۔ نبی کریم ﷺ ان سے ملے اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور ان کو ایک اللہ کی طرف بلایا اور دعوت الی اللہ میں ان سے مدد طلب كی۔ جواب میں ان میں سے ایک نے کہا ’’میں کعبہ کے پردے نوچ ڈالوں گا اگر اللہ نے تم کو رسول بنالیا ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’کیا اللہ کو تمہارے سوا کوئی رسول بنانے کو نہیں ملا۔ ‘‘ تیسرے نے کہا ’’میں تم سے ہر گز بات نہیں کروں گاکیوں کہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو تم اس سے بزرگ تر ہو کہ میں تمہاری بات کا جواب دوں، اور اگر تم اللہ کا نام لے کر جھوٹ بول رہے ہو تو اس قابل نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے۔‘‘ ان کے یہ جوابات سن کر آپ ﷺ  وہاں سے اٹھ گئے۔ چلتے ہوئے آپؐ نے ان سے صرف اتنا فرمایا: إذ فعلتم ما فعلتم فاكتموا عني   ’’تم نے مجھ سے جو برتاؤ کیا سو کیا لیکن کم از کم اتنا کرو کہ میری بات کو مخفی رکھو۔‘‘ )[1](

یہ بات آپؐ نے اس بنا پر کہی تھی کہ کہیں قریش تک یہ بات نہ پہنچ جائے اور وہ آپؐ کے مقابلے میں مزید جری نہ ہو جائیں۔ مگر ان سرداروں نے ایسا نہ کیا اور آپؐ کے پیچھے اوباشوں اور لفنگوں کو لگادیا۔ یہ آپؐ کو گالیاں دینے اور آپؐ پرآواز ے کسنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ  اپنے قیام طائف کے دوران میں جو تقریباً ۱۰ دن پر مشتمل تھا، ایک ایک سردار اور رئیس کے پاس گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن کسی نے بھی آپؐ کی دعوت قبو ل نہ کی، بلکہ انہوں نے آپؐ کو اپنے شہر سے نکل جانے کا کہا۔ چنانچہ آپؐ نے واپسی کا قصد کیا۔ انہوں نے اپنے اوباشوں اور غلاموں کو آپؐ کے خلاف اکسایا۔ شور مچا کر گالیا ں دیں اور لوگوں کو ا کٹھا کیا۔ان لوگوں نے تاک تاک کر آپؐ کے ٹخنوں اور ایڑیوں پر پتھر مارے۔ وہ راستے کے دونوں جانب صفیں بنائے کھڑے تھے اور جیسے جیسے آپؐ قدم اٹھا کر چلتے، وہ آپؐ پر سنگ باری کیے چلے جاتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں لہولہان ہوگئے اور جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ چوٹوں کی تکلیف سے جب آپؐ بیٹھ جاتے تو وہ آپ کو پکڑ کر کھڑا کر دیتے تاکہ آپؐ پر پتھر برسائیں۔ چنانچہ جب آپؐ مجبوراً چلنا شروع کر دیتے تو وہ پتھر مارنا شروع کر دیتے۔ اس موقع پر حضرت زید ؓ ڈھال بن کر آپؐ کو پتھروں کی بارش سے بچاتے یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔

آپ ﷺ کی رقت انگیز دعا

          آخر کارنبی كریمﷺ  جب طائف سے نکل گئے اور وہ بدمعاش جو آپؐ کو اذیت دیتے ہوئے آپؐ کا تعاقب کر رہے تھے، واپس چلے گئے تو زخموں سے چور اور نڈھال ہو کر آپؐ عتبہ اور شیبہ کے باغ کی دیوار کے ساتھ ایک انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اس موقع پر آپؐ کا د ل بھر آیا اور شدت غم سے آپؐ نے اپنے رب کی طرف رجوع کرکے رقت انگیز دعا کی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے۔

          آپؐ نے فرمایا:

اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَشْكُو ضَعْفَ قُوَّتِي، وَقِلَّةَ حِيلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، إِلَى مَنْ تَكِلُنِي ؟ إِلَى عَدُوٍّ يَتَجَهَّمُنِي، أَمْ إِلَى قَرِيبٍ مَلَّكْتَهُ أَمْرِي، إِنْ لَمْ تَكُنْ غَضْبَانًا عَلَيَّ، فَلاَ أُبَالِي، إِنَّ عَافِيَتَكَ أَوْسَعُ لِي، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَيْهِ أَمَرُ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ أَنْ تُنْزِلَ بِي غَضَبَكَ، أَوْ تُحِلَّ عَلَيَّ سَخَطَكَ، لَكَ الْعُتْبَى حَتَّى تَرْضَى، لاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِكَ. )[2](

یاالٰہی! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں۔ تو سب سے زیادہ رحم كرنے والا ہے یا ارحم الراحمین! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیاہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہو گئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے، یا تیراعتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔

           آپؐ اس وقت عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کے باغ کی دیوار سے لگ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ قریش کے ان دو سرداروں نے آپؐ کو اس حالت میں دیکھا تو ان کی رگ انسانیت اور رگ حمیت نے جوش مارا اور انہوں نے اپنے عیسائی غلام عداس کے ہاتھ انگوروں کا ایک خوشہ طباق میں رکھ کر آپؐ کے پاس بھیجا۔ جب اس نے انگور آپؐ کی خدمت میں پیش کیے تو آپؐ نے بسم اللہ (اور ایک روایت میں ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم)  پڑھ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔

          عداس نے کہا:

           ’’اللہ کی قسم یہاں کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولتے۔‘‘

           رسول ﷺنے پوچھا :

          ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟‘‘

           اس نے کہا:

           ’’میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔‘‘

           آپؐ نے فرمایا:

           ’’مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے ہو؟‘‘

          اس نے پوچھا:

          ’’آپؐ ان کو کیسے جانتے ہیں؟‘‘

           آپؐ نے فرمایا:

          ’’وہ میرے بھائی ہیں۔ وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔‘‘

           یہ سنتے ہی عداس آپؐ پر جھکا اور آپؐ کے سر، ہاتھوں اور قدموں کو چومنے لگا اور مسلمان ہو گیا۔ ربیعہ کے بیٹوں نے جب یہ منظر دیکھا تو آپس میں کہنے لگے :

           ’’اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا۔‘‘ 

          جب عداس واپس آیا تو انہوں نے کہا :

          ’’یہ تجھے کیا ہوگیاتھا‘‘؟                                  

           اس نے جواب دیا:

 میرے آقا، زمین میں ان سے بہتر کوئی نہیں۔ انہوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جس کو ایک نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

          انہوں نے کہا :

          ’’عداس! دیکھ  اپنے دین سے نہ پھر، تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔‘‘

          اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا کہ کیا آپؐ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو اُحد کے دن سے زیادہ سنگین رہاہو؟

           آپؐ نے فرمایا:

 ہاں! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کاسامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا، جب میں نے اپنے آپ کو عبدیا لیل بن عبد ٍکُلال کے بیٹے پر پیش کیا مگر اس نے میری بات منظور نہ کی تو میں غم و الم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں جبریل کو پایا۔ انہوں نے مجھے پکارکر کہا: آپؐ کی قوم نے آپؐ سے جو بات کہی اللہ نے اسے سن لیا ہے۔ اب اس نے آپؐ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپؐ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمدؐ! بات یہی ہے۔ اب آپؐ جو چاہیں… اگر چاہیں کہ میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں تو ایسا ہی ہوگا۔

نبی کریم ﷺ  نے اس سے کہا:

بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔)[3](

جنو ں کا قرآن سننا

          اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں کی آمد اور تائید غیبی سے آپؐ کا دل قدرے مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ آپ مکہ کی جانب رواں دواں ہو گئے اور راستے میں وادی نخلہ کے مقام پر جاکر ٹھہر گئے۔ وہاں ایک روز رات کو آپؐ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے قرآن سنا اور ایمان لے آئے اور واپس جاکر اپنی قوم میں اس کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس موقع پر نبیؐ کو ابتداء ً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ بعد میں وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان کی آمد اور سماعتِ قرآن کی اطلاع دی تھی۔ جنوں کی آمد اور قبو ل اسلام درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خوشخبری سنائی کہ انسان چاہے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے بھاگ رہے ہوں مگر بہت سے جن اس کو قبول کر رہے ہیں۔ اس نصرت اور بشارت سے آپؐ پر طائف میں پیش آنے والے واقعے کی بنا پر چھائےغم و الم کے بادل چھٹ گئے۔

مکہ واپسی

          نخلہ سے جب آپؐ نے مکہ واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت زید بن حارثہ ؓ نے فرمایا:

           آپ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جب کہ قریش نے آپؐ کو وہاں سے نکال دیاہے؟

           آپؐ نے فرمایا:

 اے زید، جو حالات تم دیکھ رہے ہو، ان سے نکلنے کے لیے اللہ کوئی راستہ پیدا کرے گا۔ وہ اپنے دین کا حامی و ناصر ہے اور اپنے نبی کو غالب کرنے والا ہے۔

          جب آپؐ مکہ کے قریب کوہ حرا پہنچے تو وہاں قیام کیا اور بنوخزاعہ کے ایک آدمی، عبداللہ بن الاریقظ کو اخنس بن شریق کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپؐ کو اپنی پناہ میں لے۔ اس نے کہا میں تو حلیف ہوں اور حلیف پناہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپؐ نے ابن اریقظ کو سہیل بن عمرو کے پاس بھیجا۔اس نے کہا بنی کعب کے مقابلے میں بنی عامر بن لوی پناہ نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد آپؐ نے اس کو مطعم بن عدی کے پاس بھیجا جو بنی عبد مناف کی شاخ بنی نوفل سے تھا۔ اس نے جواب میں کہلا بھیجا، ’’ہاں وہ مکہ میں آجائیں۔‘‘

چنانچہ آپ ﷺ شہر میں تشریف لے گئے اور رات اس کے ہاں رہے۔ صبح ہوئی تو مطعم اور اس کے چھ سات بیٹے ہتھیار باندھ کرآپؐ کو اپنے ساتھ طواف کرانے حرم میں لے گئے۔ طواف کے دوران میں وہ سب آپؐ کے گرد کھڑے رہے۔اس موقع پر ابوجہل نے پوچھا :

          ’’پناہ دی ہے یا ان کی پیروی اختیار کرلی ہے؟‘‘

           مطعم نے کہا:         ’’ نہیں، بلکہ پناہ دینے والا ہوں۔‘‘

           اس نے کہا:         ’’تمہاری پناہ کونہیں توڑا جاسکتا۔ جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی۔‘‘

          رسول اللہ ﷺنے مطعم بن عدی کے اِس احسان کو یاد رکھا۔ آپؐ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا:

اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے متعلق بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا)[4](۔

اسراء و  معراج

اس بارے میں متعدد اقوال ہیں کہ اسراء و معراج کب ہوئی جن کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے، علّامہ منصور پوری نے ۲۷ رجب دس نبوی کو اختیار کیا ہے۔ آپ ﷺ کو روح و جسد کے ساتھ براق کے ذریعے جبریل پہلے مکہ سے بیت المقدس لے گئے وہاں تمام انبیا کرام  کی آپ نے نماز میں امامت فرمائی اور براق کو مسجد کے دروازے سے باندھ دیا پھر آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی جن کی مكمل تفصیل احادیث کی کتابوں میں ملتی ہے اس موقع پر نماز پنجگانہ فرض ہوئی)[5](۔

          اللہ تعالیٰ نے نبی كریم ﷺ کو آسمانوں اور زمین کی سیر کرائی اور کائنات کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک میں واقعہ معراج کی حیثیت ممتاز ہے۔ انبیاءسمیت انسانی تاریخ میں کسی فرد کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی جو نبی ﷺ کو عطا ہوئی۔ اسراء سے مراد رات کے وقت آپؐ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جانا اور معراج سے مراد آپؐ کا بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ان مقاماتِ خاص اور ساتوں آسمانوں کی سیركی، پھر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں كا مشاہدہ كیا اورانبیاء کرام سے ملاقات كی، جنت اور دوزخ کے مشاہدے کے تمام واقعات  بھی پیش آئے جن کی تفاصیل احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔

 

 


 

 

سفر معراج کی روداد

روایات کے مطابق آپؐ اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی ؓ بنت ابی طالب کے گھر عشا کی نماز پڑھ کر سوئے تھے کہ یکایک گھر کی چھت کھول کر جبرئیل ؑ نے آکر آپ  کو جگایا  اور نیم بیداری کی حالت میں اٹھا کر آپؐ کو زمزم کے پاس لے گئے۔ سینہ چاک کیا، زمزم کے پانی سے اس کو دھویا پھراسے حلم اور بردباری اور دانائی اورایمان و یقین سے بھر دیا۔ اس کے بعد آپؐ کی سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا جس کا رنگ سفید اور قد گدھے سے بڑا اور خچر سے کچھ چھوٹا تھا۔وہ برق کی رفتار سے چلتا تھا۔اس کا ہر قدم حد نظر پر پڑتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام ’’براق ‘‘ تھا۔ جب آپؐ اس پر سوار ہونے لگے تووہ چمکا۔ جبرائیل ؑنے اسے تھپکی دی اور کہا :

دیکھ، کیا کرتا ہے۔ آج تک محمدؐ سے بڑ ی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا ہے۔

           یہ سنتے ہی وہ اس قدرشرمندہ ہوا كہ پسینے سے شرابور ہوگیا۔ پھر آپؐ اس پر سوار ہوئے اور جبرئیل ؑ آپؐ کے ساتھ چلے۔ پہلی منزل مدینہ کی تھی جہاں اتر کر آپؐ نے نماز پڑھی۔ جبرئیل ؑنے کہا آپ اس جگہ ہجرت کرکے آئیں گے۔ دوسری منزل طور سینا کی تھی جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ  ؑسے ہم کلام ہوئے تھے۔ تیسری منزل بیت اللحم تھی جہاں حضرت عیسیٰ ؑپیدا ہوئے۔ چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا، وہاں پر آپؐ نے نزول فرمایا۔

          اس سفر کے دوران میں ایک جگہ کسی پکارنے والے نے پکارا اِدھر آؤ۔ آپؐ نے توجہ نہ کی۔ جبرئیل ؑنے کہا یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا۔ دوسری طرف سے آواز آئی اِدھر آؤ۔ آپؐ نے کوئی توجہ نہ کی۔ جبرئیل ؑنے کہا یہ عیسائیت کی طرف بلانے والا تھا۔ پھر ایک عورت نہایت بنی سنوری نظر آئی اور اس نے اپنی طرف بلایا۔ آپؐ نے اس سے بھی نظر پھیر لی۔ جبرئیل ؑنے کہا یہ دنیا تھی۔ پھر ایک بوڑھی عور ت سامنے آئی۔ جبرئیل ؑ نے کہا دنیا کی باقی ماندہ عمر کا اندازہ اس عورت کی باقی ماندہ عمر سے کرلیجیے۔ پھر ایک اور شخص ملا جس نے آپؐ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر آپؐ اسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ جبرئیل ؑ نے کہا یہ شیطان تھا جو آپؐ کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔

انبیاء کرام ؑ کی امامت

          بیت المقدس پہنچ کر آپؐ براق سے اتر گئے اور اسی مقام پر اسے باندھ دیا۔ وہاں تمام انبیاء موجود تھے۔ آپؐ کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں بندھ گئیں۔ سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے۔ جبرئیل ؑنے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھایا اور آپؐ نے سب کو نماز پڑھائی۔ پھر آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے۔ ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شراب تھی۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ اٹھایا۔ جبرئیل ؑنے مبارک باد دی کہ آپؐ فطرت کی راہ پاگئے۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس یا بیت المعمور کے پاس آپ ﷺ کے سامنے تین برتن پیش کیے گئے تھے جن میں سے ایک میں شراب تھی، دوسرے میں دودھ تھا اور تیسرے میں شہد۔ لیکن تمام روایات اس پر متفق ہیں کہ آپؐ نے دودھ ہی منتخب فرمایا تھا۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ آپ کو بیت المقدس سے آسمان کی طرف لے چلے۔

پہلے آسمان پر

          جب نبی کریم ﷺپہلے آسمان پر پہنچے تودروازہ بند تھا۔ محافظ فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے اپنا نام بتایا۔ پوچھا، تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرئیل ؑنے کہا، محمدﷺ۔ پوچھا گیا، انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا، ہاں۔ تب دروازہ کھلا اور آپؐ کا پرتپاک خیرمقدم کیاگیا۔ معراج کے متعلق یہ بات تمام احادیث میں متفق علیہ ہے کہ ہر آسمان میں داخل ہونے سے پہلے جبرئیل ؑسے اسی طرح پوچھ گچھ ہوتی رہی اور جب اطمینان کر لیاگیا کہ آنے والے جبرئیل ؑہیں اور ان کے ساتھ محمد ﷺ ہیں اور آپؐ کو بلایا گیا ہے، تب دروازہ کھولا گیا اور ملائکہ نے آپﷺ کو خوش آمدید کہا اور آپؐ  کا خیرمقدم کیا۔ یہاں آپ کا تعارف فرشتوں اور انبیاء کرام سے ہوا جو اس مرحلہ پر مقیم تھے۔ آپؐ نے وہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کی اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپ کو  مرحبا کہا، سلام کا جواب دیا۔

 آدم ؑ کے دائیں بائیں بہت سے لوگ تھے۔ وہ دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے، بائیں جانب دیکھتے تو روتے۔ پوچھا، یہ کیا ماجرا ہے؟ بتایا گیا،یہ نسلِ آدم ہے۔ آدم ؑ اپنی اولادکے نیک لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں۔

          پھر آپؐ کو تفصیلی مشاہدہ کرایاگیا۔ ایک جگہ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹتے جاتے ہیں، اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا کہ یہ راہِ اللہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے ہیں۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کی سرگرانی انہیں نماز کے لیے اٹھنے نہ دیتی تھی۔ کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں کے آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے۔پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ وہ ہیں جو اپنے مال سے زکوٰۃ و خیرات کچھ نہ دیتے تھے۔

          پھر ایک آدمی کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کرکے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب  نہیں اٹھا سكتا تو اس میں کچھ مزید لکڑیوں کا اضافہ کرلیتا ہے۔ پوچھا، یہ احمق کون ہے؟ کہا گیا، یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور    ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اٹھا  نہ سکتا تھا مگر یہ ان کو کم کرنے کے بجائے اور زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے اوپر لادتا تھا۔

          پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جارہے ہیں۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ غیر ذمہ دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کرتے تھے۔

          ایک اور جگہ دیکھی۔ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس میں سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نہ جاسکا۔ پوچھا، یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا گیا، یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے بغیر سوچے سمجھے غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک شرانگیز بات کہی اور پھر نادم ہوکر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کرسکتا۔

          ایک اور مقام پر کچھ لوگ دیکھے جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟کہا گیا، یہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرتے تھے۔ ایک مقام پر کچھ لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے اور ان کی عزتوں کو پامال کیا کرتے تھے۔ کچھ اور لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھارہے تھے۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ یتیموں کا مال کھاتے تھے۔

          پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔ پوچھا، یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ سود کھانے والے ہیں۔ پھر اور لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس گوشت اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت رکھا  تھا جس سے سخت بو آرہی تھی۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا،یہ کون ہیں؟ کہا گیا، یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنہوں نے اپنی حلال بیویوں اور اپنے حلال شوہروں کے ہوتے ہوئے حرام سے اپنی خواہشِ نفس پوری کی۔ پھر دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کے سر ایسے بچے تھوپ دیے جو ان کے نہ تھے۔

          انہی مشاہدات کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت ترش روئی سے ملا۔ آپؐ نے جبرئیل ؑسے پوچھا اب تک جتنے فرشتوں سے ملاقات ہوئی سب بڑی خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے۔ اس فرشتے کی درشتگی کی وجہ کیا ہے؟ جبرئیل ؑنے کہا یہ جہنم کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپؐ نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے یکایک آپؐ کی نظر کے سامنے سے پردہ ہٹا دیا اور دوزخ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہو گئی۔

[1]           ابن سید الناس، محمد بن عبد الله بن يحي(734 ھ)، عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير:1/175،مؤسسة عز الدين للطباعة والنشر،بيروت، طبعة 1986 م۔

[2]           الطبراني سليمان بن أحمد المعجم الكبیر: حدیث نمبر:14764 دار إحياء التراث العربي  الطبعة: الثانية، 1983 م۔

[3]           صحیح البخاری،  حدیث نمبر : 3231۔

[4]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3139۔

[5]           دیكھیے رحمۃللعالمین : 1/76۔

Post a Comment

0 Comments