سيرت طيبه یثرب کا نیا نام مدینہ النبی ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 




یثرب کا نیا نام مدینہ النبی

مدینہ دراصل نبی اکرم ﷺکے ساتھ نسبت کی وجہ سے محض مدینہ نہیں، بلکہ مدینۃ النبی کے نام سے مشہور ہوا تھا، بعد میں مدینہ منورہ کہلانے لگا۔ خود نبی کر یمﷺنے اس شہر کا نام طابہ اور طیبہ رکھا تھا۔ اور ایک روایت کے مطابق مدینہ منورہ کے تقریباً ۲۹ نام ہیں جیسے المدینہ، طیبہ، طابہ، سکینہ، عذرا، جابرہ، قحبہ، محببہ، محبورۃ، یثرب، ناجیہ، موفیہ، اکالۃ البلان، مبارکہ، محفوفۃ، مسلمہ، مجنۃ، قدسیہ، عاصمہ، مرزوقہ، شافیہ، فیرہ، محبوبہ، مرحومہ، مختنارہ، محرمہ، قاصمہ، طبابا وغیرہ۔

نیز مدینہ منورہ سے اگر کسی انسان کی نسبت کی جائے تو اسے مدنی لکھا جاتا ہے اور اگر کسی اور چیز کی نسبت کی جائے تو مدینی لکھا جاتا ہے اور یہ انداز مدینہ منورہ کے لیے خاص ہے، یعنی قیاس یہی کہتا ہے کہ مدینہ کی نسبت کرتے وقت یاء باقی رہے اور مدینی لکھا جائے لیکن اس کے برعکس زیادہ مشہور مدنی ہی ہے اور بعض حضرات مدینی لکھنے کے بھی قائل ہیں جیسے مشہور محدث علی بن عبداللہ المدینی ابن المدینی کے نام سے مشہور ہیں اور یہ نسبت مدینہ منورہ کی طرف ہے۔

مشرکین یثرب اور اسلام

جب مسلمان یثرب میں وارد ہوئے تو اوس و خزرج کی اکثریت نے انہیں خوش آمدید کہا جو ہجرت سے پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کے لیے اس نئے شہر میں کسی سے دبنے یا اس کی بالادستی قبول کرنے کی نوبت نہ آئی۔ بعض مشرکین اسلام کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کر رہے تھے لیکن انھیں مسلمانوں سے کوئی عداوت نہ تھی۔ یہ لوگ بعد میں اسلام قبول کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کے اہم رکن ثابت ہوئے۔

جنگ بعاث اور عبداللہ بن أبی

کچھ مشرکین بوجوہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بغض و کینہ رکھتے تھے لیکن حالات مسلمانوں کے لیے سازگار تھے، اس لیے مدمقابل آنے کی جرأت نہ کرتے تھے۔ ادھر جنگ بعاث کے نتیجے میں  جو ہجرت سے پانچ برس قبل لڑی گئی تھی،مشرکین اور اوس و خزرج نے محسوس کیا تھا کہ اگر ہم نے نزاعی حالت یوں ہی برقرار رکھی تو یہود ہمیں نیست و نابود کر دیں گے۔ اس طرح ان میں اتفاق کا ماحول پیدا ہو گیا۔ جنگ بعاث میں عبداللہ بن ابی بن سلول غیر جانبدار رہا تھا اس لیے حالات اس طرف جا رہے تھے کہ اوس و خزرج میں باہمی اتحاد ہو اور کسی غیر جانبدار فرد کو مشترکہ سربراہ بنا لیا جائے۔ لیکن اس فیصلے سے قبل ہی مدینہ میں شرک کا اندھیرا چھٹنا شروع ہوگیا اور اسلام کا اجالا اپنی پوری تابناکی سے مدنی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے سرگرم ہوگیا۔ لوگوں کی اسلام کی طرف تیزی سے رغبت نے عبداللہ بن ابی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور لوگ نبی ﷺکی آمد کے انتظارمیں لگ گئے۔ تبدیلیِ حالات کے پیش نظر عبداللہ بن ابی بھی بظاہر ان مسلمانوں کے ساتھ ہوگیا، حالانکہ اس سے قبل اس کے لیے ایک تاج بھی تیار ہوگیا تھا تاکہ اس کی باقاعدہ بادشاہی کا اعلان کر دیا جائے۔ نبی کریم ﷺکی آمد کی وجہ سے اس کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا اور وہ اپنی امیدوں کی اس شکست کا ذمہ دار رسول اللہ ﷺ کو قرار دیتا تھا۔ اس نے اپنی قوم کو دیکھتے ہوئے بظاہر اسلام قبول کر لیالیکن اندر سے بدترین دشمنِ رسولؐ رہا اور کسی بھی موقع پر اپنی شرارت سے نہ چوکتا تھا۔ اس کے ہمنوا عموماً وہی لوگ تھے جو اس کے دربار میں بڑے بڑے عہدوں کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن بدلتے ہوئے حالات میں ان کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ یہ سارے لوگ انتہائی شریراور اسلام دشمن تھے۔ اسلام کو نقصان پہنچانے میں کفارِ مکہ اور یہودیوں سے بھی زیادہ ان لوگوں کاکردار رہا۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یہ بعض سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالیتے تھے۔

یثرب میں دعوت کی پہلی کرن

نبی کریم ﷺمکی زندگی میں دعوتِ دین اور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب کسی میلہ، بازار،مجمع یاحج کےلیے لوگ آتے توآپ ان لوگوں کو دعوتِ حق دیتے۔ اس سلسلے میں آپ کی حکمت یہ تھی کہ آپ رؤسائے  قبائل کے پاس جاتے۔ اہل یثرب میں سے ایک نوجوان شاعر، ادیب، شاہ سوار، بہادر، جنگجو اور وسیع الذہن مدبر سویدبن صامت مکہ آیا اور نبی کریم ﷺسے اس کی ملاقات ہوگئی۔ آپؐ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس سے قبل اس کے ہاتھ صحیفۂ لقمان لگ گیا تھا جسے وہ آسمانی کتاب سمجھتا تھا۔ اس نے آپؐ کو امثالِ لقمان پڑھ کر سنائیں۔ آپ نے فرمایا میرے پاس اس سے بھی بہتر چیز ہے اور آپ نے قرآن کریم کی بعض آیات تلاوت کیں۔ سوید کی فطرتِ سلیم فوراً پکار اٹھی ’’ان ھذا القول حسن‘‘ یعنی یہ تو بہت اچھا کلام ہے۔ اس نے عدم تعصب سے کام لیتے ہوئے اس کلام کو اپنے سینہ میں مقام دیا۔ لیکن یثرب لوٹنے کے بعد قبیلوں کی آپس کی لڑائیوں میں مارا گیا۔ اس کے بارے میں بعد میں لوگوں نے تذکرہ کیا کہ وہ مرتے وقت مسلمان تھا اور تکبیر اس کی زبان پر تھی اوراس کے اسلام کا اثر اوس و خزرج پر پڑچکا تھا۔

دوسرا یثربی نوجوان ایاس بن معاذ تھا۔ یہ یثرب کے اس وفد کا  رکن تھا جو اس غرض سے مکہ آیا تھا کہ قریش سے خزرج کے خلاف حلیفانہ معاہدہ کرے اور امداد حاصل کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں تک بات پہنچانے کا موقع نکالا، اسلام کا تعارف کرایا اور آیات ِقرآن کی تلاوت فرمائی۔ ایاس بن معاذ اس وقت لڑکپن کے عالم میں تھا، کہنے لگا: ’’اے میری قوم جس غرض کے لیے تم آئے ہو، اس سے یہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘ وفد کے سردار ابوالحسیر نے مٹھی بھر مٹی اس کے سینہ پر ماری اورکہا تم کیا غضب ڈھارہے ہو، ہم اس مطلب کے لیے نہیں آئے۔ ہم توقریش کی حمایت حاصل کرنے آئے ہیں۔ اگر اس شخص کی بات مان لی تو الٹا قریش ہمارے بھی دشمن ہوجائیں گے۔ ایاس خاموش ہوگیا لیکن اس کے دل میں روشنی کی کرن نے گھر کر لیا تھا۔ یہ لوگ یثرب واپس چلے گئےاور یہ بیدار دل، روشن خیال نوجوان بھی جنگِ بعاث میں کام آگیا۔

مسجد قبا میں

نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قافلے كے ساتھ بخیر وعافیت  ۸ ربیع الاول ۱۴ نبوی بمطابق ۲۳ ستمبر ۶۲۲ء قباء میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس وقت آپ كی عمر مبارك پورے ۵۳سال مكمل ہوئی،  ایك دن بھی كم یا زیادہ نہ تھی۔ادھر مدینہ منورہ میں مسلمان شدت سےآپ كا انتظار كر رہے تھے، ان كو خبر ہو چكی تھی كہ آپ دس روز پہلے مكہ مكرمہ سے نكل چكے ہیں، اس طرح ہر روز لوگ صبح سے شام تك انتظار كے بعد واپس چلے جاتے۔

بالآخر وہ دن آ ہی گیا كہ انتظار كی گھڑیاں ختم ہوئی اور آفتاب دوعالم یثرب كی وادی میں طلوع ہوا جس نے سارے جہانوں كو منور كیا۔

 


ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ كی كمال حكمت

حضرت ابو بكر رضی اللہ عنہ جسمانی طور پر دیكھنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے لگتے تھے جسم بھی قدرے فربہ تھا اور بال بھی آپ كی نسبت زیادہ سفید تھے۔ اس لیے وہ حضرات جنہوں نے نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كو دیكھا نہ تھا جب حاضری كے لیے آتے تو آتے ہی سب سے پہلے حضرت ابو بكر صدیق كو سلام كرتے۔حضور ﷺ خاموشی سے ایك طرف بیٹھے رہتے، حضرت ابو بكر صدیق نے جب یہ سب دیكھا كہ لوگ تو میرا استقبال كر رہے ہیں انہیں یہ بات اچھی نہ لگی كہ حضور سے پہلے میرا استقبال ہو رہا ہے، انہوں نے ایك چادر لی اور اس كو ایك طرف سے درخت سے باندھ دیا اور دوسری طرف سے خود پكڑ كر كھڑے ہو گئے تاكہ حضور ﷺ پر سایہ ہو،اس طرح لوگوں كو پتہ چلا كہ رسول اللہ کون ہیں۔ اب جو لوگ آتے وہ براہ راست رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم كو سلام كرتے۔

مسجد قباء كی تعمیر

زائرین مدینہ طیبہ زیارت كے دوران مسجد قباء بھی جاتے ہیں جو مدینہ منورہ كے اندر ایك وسیع عریض اور خوب صورت مسجد ہے۔ اس مسجد كی تاریخی حیثیت ہے اور اللہ تعالی نے اسے قرآن كریم میں مسجد تقوی كا نام دیا ہے یہ دنیا اسلام كی پہلی مسجد ہے یہاں نماز نفل پڑھنے كا ثواب عمرے كے برابر ہے،([1])  اس وقت مدینہ منورہ یثرب كے نام سے مشہور تھا اور یہ جگہ قباء كہلاتی تھی جو مدینہ سے كم وبیش پانچ میل كےفاصلے پر تھی۔ آپ نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے یہاں پڑاؤ كیا تھا اور آپ كی نسبت سے یہ جگہ بھی قیامت تك  كے لیے با بركت ہوگئی۔ ہر سال لاكھوں فرزندان توحید حج وعمرہ كے لیے جاتے ہیں وہ اس مسجد میں نماز ضرور ادا كرتے ہیں، اور اہل پاكستان كے لیے یہ بھی اعزاز ہے كہ آج كل  اس مسجد كے امام آزاد كشمیر مظفر آباد كے ایك مشہور قاری اور حافظ ہیں۔

اس مسجد كو یہ اعزاز حاصل ہے كہ یہ اسلام كی سب سےپہلی مسجد ہے جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر كروایا، اس سےپہلے كوئی بھی مسجد نہیں بنائی گئی۔آپ اس كو بناتے ہوئے خود پتھر اٹھا اٹھا كر لاتے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ كے ساتھ شعر بھی گنگناتے۔ جو حمدیہ اشعار وہ كام كے دوران گنگنا رہے تھے ان کے الفاظ ابن ابی شیبہ نے یہ بیان كیے ہیں :

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ يُعَالِجُ الْمَسَاجِدَا، يَتْلُو الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَا، وَهُمْ يَبْنُونَ الْمَسْجِدَ ([2])

ادھر پورا یثرب استقبال كے لیے ٹوٹ پڑا تھا۔ لوگ جوق در جوق ایك جھلك دیكھنے كےلیے دوڑے آرہے تھے۔ اس وقت مسلمانوں كے ساتھ ساتھ یہود اور مشرك بھی چلے آ رہے تھے۔  ابن اسحاق ابن ہشام علامہ منصور پوری اور صفی الرحمن مبارك پوری نے چار روز قباء میں ٹھہرنے كو اختیار كیا ہے جب كہ امام بخاری امام مسلم امام احمد بن حنبل وغیرہ نے تصریح كی ہے كہ آپ چودہ روز تك قباء میں ٹھہرے اور اس كے بعد مدینہ كی طرف روانہ ہوگئے۔ ([3])

قباء سے آپ  مدینہ منورہ كی طرف روانہ ہوئے تو بنو نجار كو پیغام بھیجا اور وہ تلواریں لٹكائے ساتھ ساتھ ہو گئے۔اسی سفر كے دوران میں قبیلہ بنی سالم میں جمعے كا وقت ہوگیا تو آپ ﷺنے وہاں لوگوں كو جمع كیا جن كی تعداد سو تھی۔ یہ نمازِ جمعہ پہلی جمعہ كی نماز تھی جو آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ادا كی۔

یثرب سے مدینہ

جمعہ كے بعد آپ  ﷺكا قافلہ یثرب میں داخل ہوا تو یثرب مدینہ طیبہ بن گیا، یہ وہ دن تھا جب دوعالم كی عظیم ترین ہستی كا استقبال اس شہر میں ہو رہا تھا جو بظاہر بے سروسامانی كے عالم میں سب كچھ چھوڑ چھاڑ كر مہاجر كی حیثیت سے اس شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ اور ادھر دشمن نے آپ كے سر كی قیمت سو اونٹ لگا ركھی تھی۔ چشم فلك نے دیكھا كہ لوگ اپنے محبوب كا استقبال كس طرح كر رہے ہیں۔ یثرب كا كوئی بھی شخص گھر میں نہ تھا۔ گلیاں تكبیر وتحمید سے گونج رہی تھیں، انصاركی بچیاں جذبات اور خوشی میں یہ اشعار گا رہی تھیں :

طلع البدر علينا ... من ثنيات الوداع([4])

وجب الشكر علينا ... ما دعا لله داع

أيها المبعوث فينا ... جئت بالأمر المطاع

انصار كا ہر شخص چاہتا تھا كہ آپ اس كے گھر كو رونق بخشیں، اگرچہ وہ لوگ اس قدر مالدار نہ تھے اور نہ اس كی گنجائش ركھتے تھے لیكن ہر ایك كا یہ جذبہ تھا كہ حضورﷺ اسی كے گھر تشریف لے جائیں، اس لیے جس گھر سے بھی قافلہ گزرتا تو اونٹنی كی رسی تھام لیتا، آپ فرماتے اسے چھوڑ دو یہ حكم كی پابند ہے جہاں ركنا ہو گا خود رك جائے گی۔ چنانچہ اونٹنی چلتی رہی یہاں تك ہ خود ہی ایك جگہ پر جا كر رك گئی۔اونٹنی ركی اور ادھر اُدھر دیكھا، پھر چل پڑی، پھر ادھر ادھر دیكھا اور واپس پہلی جگہ پر آ كر بیٹھ گئی۔ حضرت ابوایوب جلدی سے آگے بڑھے اور سامان اٹھا كر چل دیے۔ اس طرح خود نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان كے پیچھے چلتے ہوئے ان كے گھر تشریف لے گئے۔ اور فرمایا المرء مع رحله( جہاں سامان وہیں انسان)۔بخاری كی ایك روایت میں ہے كہ آپ نے فرمایا: یہاں قریب ترین كس كا گھر ہے ؟ ابوایوب نے عرض كیا : میں اور میرا گھر یا رسول اللہ،یہ ہی تو دروازہ ہے، تو آپ نے فرمایا: چلو۔۔۔([5])

مدینہ منورہ میں سب سے پہلا كام

نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم بروز جمعہ ۱۲ ربیع الاول ایك ہجری بمطابق ۲۷ستمبر ۶۲۲ء مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہوئے اور حضرت ابو ایوب انصاری كے گھر كی پہلی منزل میں آپ نے سات مہینے تك قیام كیا۔ اسی دوران میں  آپ نے سب سے پہلا عملی كام جو كیا وہ اللہ كے گھر كی تعمیر تھی اور اللہ تعالی كے حكم كے مطابق آپ كی اونٹنی جس جگہ بیٹھ گئی تھی اسی جگہ آپ نے مسجد بنانے كا فیصلہ كیا۔ یہ زمین دو یتیم بچوں كی تھی جسے آپ نے خرید كر مسجد بنوائی، مسجد كی تعمیر كے دوران  میں آپ خود گارا اور پتھر اٹھاتے، باقی صحابہ كے ساتھ مل كر كام كرتے رہے۔ یہ عظیم الشان مسجد اسلام كی سادگی كی ایك تصویر تھی۔ دیواریں كچی اینٹوں اور گارے كی تھیں۔ چھپڑ كھجوروں كے پتوں اور تنوں كا تھا۔ قبلہ بیت المقدس كی طرف ركھا گیاتھا۔ فرش پر صرف مٹی تھی۔ بارش میں چھت سے پانی آتا اور نیچے كیچڑ بن جاتا۔ بعد میں كنكریاں پھینك دی گئیں تاكہ كیچڑ نہ ہو۔

مسجد نبوی كا نقشہ

آج كی مسجد نبوی كو اگر دیكھا جائے تو پہلی مسجد نبوی كا نقشہ ذہن میں آسكتا ہے۔  آج جہاں سے محبان نبی صلاة وسلام پیش كرنے كےلیے جاتے ہیں اس كےبالكل بائیں طرف روضہ اقدس سے متصل روضة الجنة ہے جہاں نماز پڑھنے والا گویا جنت میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ ’’میرے گھر اور میرے منبر كے درمیان جنت كے باغوں میں سے ایك باغ ہے۔‘‘ ([6]) یہ جگہ ہے جہاں منبرِ رسولﷺ ہے۔ اسی پر آپ خطبہ دیتے تھے۔ آج كل اس جگہ پر جو قالین بچھایا گیا ہے اس كا رنگ مسجد كے دیگر قالینوں كے رنگ سے مختلف كر دیا گیا ہے تاكہ جگہ كے تعین میں آسانی ہو۔ یہاں ہزاروں كی تعداد میں لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں كہ صرف دو نوافل كا موقع مل سكے۔ یہی اصل میں وہ مسجد ہے جو نبی كریمﷺكے زمانے میں تھی۔قبلہ  كی طرف رخ كر كے كھڑے ہوں تو بالكل بائیں جانب نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے حجرے تھے جہاں آپ كی تمام ازواج ِمطہرات كی رہائش تھی۔ ان میں سےقبلہ  كی جانب پہلے نمبر پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا كا حجرہ تھا،جہاں روضہ مبارك اور حضرت ابو بكر وعمر رضی اللہ عنہماكے مقبرے ہیں،اور اس كےساتھ پیچھے كی طرف  دیگر كمرے تھے۔سید دوجہاں كے یہ كمرے چھ چھ سات سات  ہاتھ چوڑے اور دس باتھ لمبے، اور اونچے اس قدر تھے كہ چھت سے ہاتھ 

لگتے تھے۔ كچے كمرے تھے جن كے دروازوں كی جگہ پردے لٹكے ہوتے تھے۔  ہر كمرے كی كھڑكی مسجد كی طرف كھلتی تھی۔ آخری كمرے كے بعد ایك اونچی جگہ تھی جسے صفہ كہا جاتاتھا۔ یہا ں ایسے لوگ رہتے تھے جن كا گھر بار نہ تھا، اسلام قبول كر چكے تھے اور آغوش ِنبوی میں تعلیم حاصل كرنے كےلیے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ یوں سمجھیے كہ ایك مدرسہ تھا جہاں طالبانِ دین وشریعت موجود رہتے تھے۔  اہل مدینہ اپنی بساط كے مطابق ان كی روٹی پانی كا بندو بست كر دیا كرتے تھے۔ یہ جگہ اب بھی اسی نقشے كے مطابق ہے اور لوگ مسلسل وہاں بیٹھ كر قرآن كریم كی تلاوت كرتے رہتے ہیں۔ اُ س زمانے كی مسجد اسی قدر تھی او راردگر مدینہ شہر آباد تھا۔

حجراتِ ازواج مطہرات

 جب مسجد تعمیر ہو چکی تو مسجد کے ساتھ ہی، جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے آپ کی ازواج مطہرات کے لیے مکانات بنائے گئے۔ اس وقت تک حضرت سودہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نکاح میں آچکی تھیں اس لیے دو ہی حجرے بنے۔ ازواج مطہرات آتی گئیں اور حجر ے بنتے گئے۔ یہ مکانات کچی اینٹوں کے تھے۔ ان میں سے پانچ کھجور کی ٹہنیوں کے تھے۔ ترتیب یہ تھی کہ حضرت ام سلمہؓ، ام حبیبہؓ، جویریہؓ، میمونہؓ، زینبؓ بنت جحش کے مکانات جانبِ شام تھے اور حضرت عائشہؓ، صفیہؓ  اور سودۃؓ کے حجرے دوسری جانب۔ یہ مکانات مسجد سے متصل تھے اس لیے دورانِ اعتکاف میں آپ مسجد سے سر نکال دیتے اور ازواج مطہرات گھر میں بیٹھے بیٹھے آپ کے بال دھو دیتی تھیں۔ یہ مکانات چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے اور دس دس ہاتھ لمبے تھے۔ چھت اتنی اونچی کہ آدمی کھڑا ہوکر اسے   چھولیتا تھا۔ درازوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ راتوں کو چراغ نہیں جلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سید الکونین اور امام الانبیاء بنایا۔جہانوں میں سے آپ سے افضل مخلوقِ خدا میں کوئی نہیں۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ گھر کی لمبائی چوڑائی کیا ہے ؟یہ گھر کس چیز سے بنے ہیں؟ ان کی وسعت اور اونچائی کتنی ہے اور ان میں گزر اوقات کی کس قدر سہولتیں موجود ہیں؟ آپؐ کی یہ سادہ زندگی، دنیا سے بے رغبتی اور قناعت، اس مادہ پرستانہ زمانے میں امت کے لیے  خاص اہم پیغام ہے۔ اب ذرا امام الانبیاء کے کھانے پینے کا حال دیکھیں۔ آپؐ کے پڑوس میں سردارانِ انصار رہتے تھے۔ یہ لوگ آپؐ کی خدمت میں دودھ بھیج دیا کرتے تھے اور اسی پر آپ گزر بسر فرمالیتے۔ حضرت سعد ؓبن عبادۃ رات کے کھانے میں ہمیشہ بڑا بادیہ بھیجا کرتے تھے جس میں کبھی سالن، کبھی دودھ، کبھی گھی ہوتا تھا۔ حضرت انسؓ کی والدہ نے اپنی جائیداد نبی کریم ﷺکی خدمت میں پیش کی آپؐ نے قبول فرماکر اپنی دایہ ام ایمنؓ   کو دے دی اور خود فاقہ کا سلسلہ جاری رکھا۔

مسجد کا کردار

مساجد، اور بطور خاص مسجد نبوی کی عظمت و فضیلت پر بڑی بڑی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ نبی کریمﷺکی مدینہ آمد کے بعد قبا اور مدینہ، دونوں مقامات پر مسجد کی تعمیر سے آغاز کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسلام میں مسجد کی کس قدر اہمیت ہے۔ یہ مسجد نومولود مدنی معاشرہ کی پہلی اینٹ تھی۔ یہی اسلام کے نقطۂ آغاز کا بنیادی نشان تھا۔آپؐ نے مسجد کو تمام معاشرتی، سیاسی اور ریاستی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا۔ اسی میں وہ دارالندوہ تھا جس میں مسلمان بیٹھ کر مشاورت کرتے تھے جس کی بنا پر مسجد ایک پارلیمنٹ کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔ مسجد میں مسلمانوں کی تمام تر تعلیمی و تدریسی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں۔ صفہ کے چبوترے پر جو کلاس روم قائم ہوا، اس سے فارغ ہونے والے حضرات نے لاکھوں مربع میل پھیلی ہوئی اسلامی ریاست کی مختلف اور متنوع ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ یہ مسجد اسلامی ریاست کے مختلف وظائف کے لیے سول سیکریٹریٹ کا درجہ بھی رکھتی تھی۔ اس میں وہ فارن آفس بھی تھا جہاں سے دوسرے ملکوں اور سلطنتوں میں سفیر روانہ کیے جاتے تھے اور دوسرے ممالک کے سفراء کا استقبال کیا جاتا تھا۔ اسی مقام پر مسلمانوں کا وہ اسٹیٹ بنک بھی تھا جہاں اسلامی ریاست کے ہر نوع کے مالِ غنیمت، محاصل، صدقات جمع ہوتے تھے اور پھر انھیں حسبِ ضرورت تقسیم  کیا جاتا تھا۔ یہ مسجد ہی وہ جگہ تھی جو ایک عدالت کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتی تھی۔ نیز مسجدِ رسولؐ کو اپلیلیٹ بورڈ کا درجہ بھی حاصل تھا کہ مختلف علاقوں کے گورنروں کے فیصلوں کے خلاف اگر کوئی اپیل مقصود ہوتی تو اس کا آخری فیصلہ  یہیں سنا جاتا تھا۔ اس مسجد کو ایک اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کا درجہ بھی حاصل تھا جہاں مختلف وفودکے ساتھ نہ صرف مذاکرات ہوتے تھے بلکہ انھیں اقامتی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ مسجد اس دارالخلافہ کے لیے ایک کمیونٹی سنٹر کا درجہ رکھتی تھی جہاں پر کمیونٹی کو مختلف سماجی و معاشرتی مواقع پر اکٹھا ہونے کا موقع ملتا تھا حتیٰ کہ شادی اور نکاح کی تقریبات بھی مسجد میں انجام پاتیں۔ اسلامی افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے طور پر غزوات و سرایا کی تنظیم و تشکیل کے سارے مراحل بھی مسجد ہی میں طے پاتے تھے۔ الغرض اسلامی ریاست ہو یا معاشرہ، اس کی ہیئت ترکیبی کے تمام ادارے مسجد کے ساتھ وابستہ تھے۔ البتہ مسجد میں ان و ظائف میں سے کوئی ذمہ داری انجام نہیں دی جاتی تھی جس کا تعلق بازار، منڈیوں یا سامان کی خریدو فروخت سے ہو۔ نبی کریم ﷺکی اس سنت پر صدیوں تک عمل ہوتا رہا۔ چنانچہ جہاں بھی مسلمانوں کی کوئی بستی قائم ہوئی اس کا آغاز مسجد سے ہوا۔ دنیا میں موجود لاکھوں مساجد اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ مسلمان جہاں بھی گئے انھوں نے مسجد ہی سے بستی کا آغاز کیا۔ بچوں کو درس و تدریس اور قرآن، تفسیر،حدیث اور علوم مختلفہ کی تعلیم مساجد ہی میں دی جاتی رہی۔ تمام نامور علمائے اسلام، محققین و مفکرین کے سوانح سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعلیم کا آغاز مدارس و مساجد ہی سے ہوا، چاہے وہ علوم اسلامیہ کے ماہر ہوں یا فلکیات و کیمیا کے۔ یقیناًیہ سنت نبوی ہی تھی جس کی کرنیں چہار سو پھوٹیں اور ساری دنیا کو حقیقی معنوں میں روشنی کی نوید دے گئیں۔



[1]           سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۳۲۴۔

[2]           ابن أبی شبیة، أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي م:۲۳۵هـ المُصَنَّف.رقم الحديث ۲۶۵۷۶دار القبلة، بدون تاريخ۔

[3]           دیكھیے: صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۴۲۸۔

[4]           بعض سیرت نگاروں نے طلع كی جگہ أشرق  لكھا ہے اور مفہوم ایك ہی ہے، مباركپوری، اور سلمان منصور پوری نے أشرق كو ترجیح دی ہے جب كہ وفاء الوفاء میں سمہودی نے طلع لكھا ہے، الرحیق المختوم: 1/156، وفاء الوفاء:1/204۔

[5]           ايضاًٍ، حدیث نمبر: ۳۹۱۱۔

[6]           ايضًا حدیث نمبر: ۱۱۹۵۔

 

Post a Comment

0 Comments