سيرت طيبه حضرت سعدبن ربیع اور حضرت عبدالرحمان بن عوف کی باہمی مؤاخات ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE




حضرت سعدبن ربیع اور حضرت عبدالرحمان بن عوف کی باہمی مؤاخات

انصار کے  ایثار، مسلسل قربانیوں اور مہاجرین کو ترجیح دینے کے واقعات فتح مکہ تک جاری رہے اور مؤاخات  کا سلسلہ بھی فتح  مکہ تک برقرار رہا۔ یہاں حضرت سعد بن ربیع اور عبدالرحمان بن عوف کا واقعہ قابل ذکر ہے۔

حضرت سعد انصاری تھےاور عبدالرحمان مہاجر جب ان کے درمیان بھائی چارہ  قائم ہوا تو سعد نے کہا: میں سب سے مال دار ہوں میں آپ کو اپنا نصف مال دیتاہوں، میری دو بیویاں ہیں جسے تم پسند کر و میں اسے طلاق دے دیتا ہوں، عدت کے بعد اس سے نکاح کرلینا۔ اس پیشکش  پر حضرت عبدالرحمٰن نے کہا: ’’بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ، مجھے اس کی ضرو رت نہیں‘‘۔ پھر انہوں نے مدینہ کے بڑے بازار یا منڈی کا راستہ پوچھا توا نہیں بتایا گیا کہ بنو قینقاع میں منڈی ہے۔ وہ وہاں چلے گئے۔ رات کو واپس آئے تو کھانا پینا اور پنیر مکھن وغیرہ ساتھ لے آئے۔ پھر رو زانہ  بازار جاتے رہے اورانہیں خاطر خواہ منافع ہونا شروع ہوگیا۔ پھر انہوں نے شادی بھی کرلی اور مہر میں کھجور کی گٹھلی کے برابر  سونا بھی دیا۔ شادی کے بعد جب حضور ﷺ نے ان کے ہاتھ پر  زردی دیکھی تھی تو دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کیا حضور! میں شادی کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: أولم ولوبشاۃ، ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی سہی۔([1])

حضرت  عبدالرحمٰن  بن عوف مدینہ کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوگئے۔ خود  کہتے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں  تو سونا بن جاتی ہے۔ ان کا مال تجارت، سات، سات سو  اونٹوں پر آتا تھا اورجس روز مدینہ پہنچتا   سارے شہر میں اس پر تبصرے ہوتے تھے۔

مہاجر صحابہ کرام نے میں سے اکثر نے کاروبار شروع کرلیا۔  حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان بھی رؤسائے مدینہ میں شمار ہونے لگے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ  کی کثرتِ روایات  پر اعتراض کیا گیا کہ باقی  صحابہ تو اس قدر روایت نہیں کرتے تو  انہوں نے جواب دیا: اس میں میرا کیا قصور، اور لوگ تو بازاروں میں تجارت کرتے تھے اور میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضررہتا تھا۔

الغرض نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام میں وطن سے دوری، اہل و عیال اور خاندان کی جدائی کا احساس دور کرنے کی خاطر بھی یہ بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ پھر جب اسلام اور مسلمانوں کے قدم جم گئے، مہاجرین اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوگئے، امور بتدریج بہتر ہوگئے، مہاجرین کی اجنبیت ختم ہوگئی۔ مدینہ منورہ ان کا وطن عزیز بن گیا، معاشی مسائل حل ہوگئے، ادھر  غزوہ بدر میں مسلمانوں کو اللہ کی خصوصی نصرت سے فتح نصیب ہوگئی اور مہاجرین کے دل فتح کی خوشی و جذبات سے لبریز ہوگئے تو خود باری تعالیٰ نے مؤاخات میں قائم ہونے والے باقی قواعد و ضوابط کو برقرار رکھتے ہوئے وراثت میں مؤاخاتی بھائی کا حصہ ختم کرکے اسے حقیقی رشتہ داروں کے لیے خاص کردیا، فرمایا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ([2])

اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آگئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

 اس کی مزید وضاحت سورۃ الاحزاب کی آیت ۶۱ میں بھی آئی ہے۔

مہاجرین و انصار کے درمیان بے مثال بھائی چارہ اور یہودیوں كے ساتھ سیاسی معاہدہ

نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں كی آباد كاری سے فارغ ہوئے تو ایك اہم معاملہ یہ درپیش تھا كہ یہاں ایك اسلامی معاشرے كی تشكیل دی جائے،ایك فلاحی اسلامی مملكت قائم كی جائے، لیكن مدینہ منورہ میں آئے روز ایك طرف جوق در جوق مہاجرین آرہے تھے دوسری طرف مدینہ میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں جو اپنے اپنے طریقے كے مطابق قبائلی انداز میں رہ رہے تھے، یہودیوں كے تین بڑے قبیلے مدینہ كے اطرف میں آباد تھے جو منڈیوں پر بھی قابض تھے اور سیاسی اثر رسوخ بھی ركھتے تھے، بیرون مدینہ ان كے اچھے خاصے تعلقات تھے، یہ تینوں قبیلے بنو نضیر، بنو قینُقاع اور بنوقریظہ اپنے اپنے برجوں اور قلعوں میں رہائش پذیر تھے۔ دوسری طرف اوس وخزرج تھے جو پرانے عربوں میں شمار ہوتے تھے لیكن باہمی لڑائیوں سے اپنی طاقت كھو چكے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر مشرك تھے۔ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے كمال حكمت سے ان دونوں طاقتوں سے مل كر مدینہ میں ایك مشتركہ حكومت بنانے كا فیصلہ كر لیا، چنانچہ آپ نے یہود كے ساتھ ایك معاہدہ كیا  اور انصار اور اوس وخرزج سے مل كر اسے لكھوایا جس كے مطابق تینوں طاقتیں یعنی مہاجرین انصار اور یہودی اكھٹے مدینہ میں رہیں گے اور ایك دوسرے كے معاون ومتعاون رہیں گے۔

مسلمانوں كے آپس میں معاہدے كا خلاصہ یہ تھا كہ :

۱:مسلمان ایك الگ اور مستقل امت ہیں۔

۲:مہاجرین اپنی سابقہ حالت كے مطابق باہم دیت دیں گے اور مؤمنین كے درمیان عرف اور انصاف كے مطابق اپنے قیدیوں كا فدیہ دیں گے۔اور انصار سابقہ حالت كے مطابق باہم دیت دیں گے اور اہل ایمان كے درمیان عرف اور انصاف كے مطابق اپنے قیدیوں كا فدیہ دیں گے۔

۳:اہل ایمان اپنے درمیان كسی بیكس كو فدیہ یا دیت كے معاملے میں معروف طریقے كے مطابق عطاء ونوازش سے محروم نہ ركھیں گے۔

۴:سارے راست باز مؤمنین اس شخص كے خلاف ہوں گے جو ان پر زیادتی كرے گا، یا اہل ایمان كے درمیان ظلم اور گناہ اور زیادتی اور فساد كی راہ كا جویا ہو گا۔

۵:ان  سب كے  ہاتھ اس شخص كے خلاف ہوں گے خواہ وہ ان میں سےكسی كا بیٹا ہی كیوں نہ ہو۔

۶:كوئی مؤمن كسی مؤمن كو  كافر كے بدلے قتل كرے گا نہ كسی مؤمن كے خلاف كسی كافر كی مدد كرے گا۔

۷:اللہ كا ذمہ ایك ہو گا۔ایك معمولی آدمی كا دیا ہوا ذمہ بھی سارے مسلمانوں پر لاگو ہو گا۔

۸:جو یہود ہمارے پیروكار ہو جائیں أن كی مدد كی جائے گی اور وہ دوسرے مسلمانوں كے مثل ہوں گے۔ نہ ان پر ظلم كیا جائے گا اور نہ ان كے خلاف تعاون كیا جائے گا۔

۹:مسلمانوں كی صلح ایك ہو گی۔كوئی مسلمان كسی مسلمان كو چھوڑ كر قتال فی سبیل اللہ كے سلسلے میں مصالحت نہیں كرے گا، بلكہ سب كے سب برابری اور عدل كی بنیاد پر كوئی عہد وپیمان كریں گے۔

۱۰:مسلمان اس خون میں ایك دوسرے كے مساوی ہو ں گے جسے كوئی فی سبیل اللہ بہائے گا۔

۱۱:كوئی مشرك قریش كی كسی جان یا مال كو پناہ نہیں دے سكتا اور نہ كسی مؤمن كے آگے اس كی حفاظت كےلیےركاوٹ بن سكتا ہے۔

۱۲:جوشخص كسی مؤمن كو قتل كرے گا اور ثبوت موجود ہو گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ سوائے اس صورت كے كہ مقتول كا وارث راضی ہو جائے۔ ([3])

۱۳:تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔

۱۴:مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔

۱۵:اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

۱۶:مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔

۱۷:تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔([4])

یہود مدینہ كے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس كا خلاصہ علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی میں بیان كیا ہے :

۱:خون بہا كا جو طریقہ پہلے سے چلا آ رہاتھا،اب بھی قائم رہے گا۔

۲:یہودكو مذہبی آزادی حاصل ہو گی، اور ان كے مذہبی امور سے كوئی تعرض نہیں كیا جائے گا۔

۳:یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ ركھیں گے۔

۴:یہود یا مسلمانوں كو كسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایك فریق دوسرے كی مدد كرے گا۔

۵:كوئی فریق قریش كو امان نہ دے گا۔

۶:مدینہ پر كوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق دفاع میں شریك ہو ں گے۔

۷:كسی دشمن سے اگر ایك فریق صلح كرے گا تو دوسرا بھی شریك صلح ہوگا لیكن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہو گی۔

۸:اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔

۹:ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

۱۰:شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔ ([5])

مؤاخاتِ مدینہ کے فوائد

مدینہ میں جمع ہونے والے جانثارانِ نبی ایک مقصد اور ایک منزل کے راہی تھے، وہ ایک جماعت تھی، وہ خیر امت تھے اگرچہ وہ متفرق قبائل سے تعلق رکھتے تھے، مختلف  جغرافیائی حدود سے تعلق رکھتے تھے، ان کے رنگ بھی مختلف تھے لیکن مقصد زندگی کی یکجائی نے انہیں تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرودیا تھا۔ نبی کریمﷺ نے ان کے درمیان مزید اتحاد واتفاق  پیدا کرنے کے لیے ان کے ظاہری نفع نقصان میں بھی اتحاد پیدا فرمادیا  اورانہیں سگے بھائیوں جیسے حقوق دے دیے تاکہ ہر مشکل اور آزمائش میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں۔ عقیدے  کی بنیاد پر بننے والا بھائی چارہ معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ اسی مؤاخات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑوس کے یہودی، منافق ا ور دور کے مشرکین مکہ، ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ وہ آپس میں بریشم کی طرح نرم اور دشمن کے مقابلے میں فولاد ثابت ہوئے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور انہیں دنیا میں ایسی قوت، عظمت اور اقتدار  دیا  جس کے اثرات  آج پندرھویں صدی میں بھی موجود ہیں بلکہ انہیں پاک طینت روحوں کی قربانیوں  کے نتیجے میں آج ہم  تک اسلام پہنچا ہے۔

مؤاخات  بھی سنتِ نبوی ہے۔ جیسے دیگر سنتوں کا اہتمام کیا جاتاہے، مسلمانوں کو آج بھی آپس میں مؤاخات کی سنت پر عمل کرتےہوئے ایک دوسرے کا ہمدرد اورغمگسار بننا چاہیے۔ اگر ہر امیر ایک غریب کو  اپنا بھائی بنالے، ہر عالم ایک جاہل کو ساتھ ملالے، ہر طاقتور  ایک کمزور  کا بھائی بن جائے تو یہ معاشرہ مدنی معاشرے کا عکس پیش کرسکتاہے۔ ہمارے اسلامی معاشروں سے غربت، تنگی، ظلم اور زیادتی کا خاتمہ ہوسکتاہے۔دور ِحاضر میں     بے شمار دینی اصلاحی، سیاسی مذہبی جماعتیں وجود میں آئی ہیں جن میں بھائی بھائی کا راگ تو الاپا جاتا ہے لیکن بھائی چارہ  یا توحلق سے اوپر تک ہوتاہے یا جلسہ گاہ اور اجتماعی پروگرام تک محدود ہوتاہے،  کوئی کسی کی غمگساری نہیں کرتا، کسی کے کام نہیں آتا،کسی بھی سطح پر مؤاخاتِ مدینہ پر عمل نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں اُمت ِمسلمہ زبوں حالی، تنزلی اور انحطاط کی ساری حدیں پار کرچکی ہیں۔

مؤاخات کے واقعات  کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتاہے کہ ایک طرف انصار نے ایثار کی بے مثال تاریخ رقم کی، جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے تو دوسری  طرف مہاجرین  نے عجیب استغناء  کا مظاہرہ کیا کہ انصار کو تکلیف دیے بغیر اپنے پاؤں  پر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ اس طرح چشم فلک نے دیکھا کہ جو نہتے، چھوٹے سے یثرب میں جمع ہوئے تھے، تین اطراف سے دشمنوں  کے نرغے میں  تھے، یہود منافقین اور قریش مکہ  ان کے جانی دشمن تھے لیکن تربیتِ نبوی اور مؤاخاتِ نبوی کی بدولت رب تعالیٰ نے محض سات  سال کے عرصے میں ان کو دنیا کی سپر طاقت بنادیا۔

صفہ اور اصحابِ صفہ

مدینہ  منورہ  میں مہاجرین کی آباد کاری میں ایک طرف ایسے افراد شامل تھے جو اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ آئے تھے  اور مدینہ میں  آپؐ کی خدمت میں ہر وقت طلبِ علم کے لیے  حاضر رہتے تھے،  ان کے پاس روٹی کپڑا اور مکان نہ تھا اور وہ  انتہائی  کسمپرسی کی حالت میں رہتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی رقمطرازہیں: ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی اور کبھی کبھار چار سو تک پہنچ جاتی تھی ([6]  اگرآپ روضۃ الجنۃ کے پچھلے حصہ میں کعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو آپ کے بائیں جانب جو اونچا چبوترہ ہوگا، وہی صفہ ہے جہاں بعض لوگ سعادت کے حصول کے لیے بیٹھ کر قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔یہ اس زمانے میں بھی  ایک اونچی  جگہ تھی جس پر کھجور کے  پتوں کا سایہ کیا گیا تھا،اسی کو  عربی میں صفہ کہتےہیں۔ اصحابِ صفہ وہیں رہتے تھے۔ کسی کے پاس بھی مکمل تن ڈھانپنے کے لیے کپڑاتك  نہ تھا، کھانے کو کبھی ایک کھجور ملتی کبھی دو کھجوروں پر دن رات  گزر جاتے۔ یہ حضرات ایک طرف بنی كریم ﷺ کے براہِ راست شاگرد بننے کا اعزاز حاصل کررہے تھے  تو دوسری جانب استاذ اور داعی کی صورت میں انہیں دور دراز قبیلوں میں بھیجا جاتا تھا۔

ہجرت کے ۱۶ ماہ بعد تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا اور قبلہ بیت المقدس سے مکہ کی طرف کیا گیا تو صفہ والی جگہ جو سابقہ مسجد کا اوّلین حصہ تھی، اب مسجد کا پچھلا حصہ بن گئی تھی۔ اس پر سائبان ڈال کر  مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور بعد میں  یہی دنیا کی پہلی یونیورسٹی بن گئی جہاں طعام و قیام  کی ساری ذمہ داری  جناب رسالت مآب ﷺ نے اپنے ذمہ لے کر طلبہ کی تدریس شروع کی۔

یہ جانثار انِ نبی رات  بھر عبادت کرتے اور دن کو تبلیغ  و جہاد میں مشغول رہتے۔ ان میں سے بعض نے شہادت کا درجہ حاصل کیا  جیسے خریم بن فاتک اسد ی، صفوان بن بیضاء، حارثہ بن نعمان، حنظلہ غسیل الملائکہ، ذوالبجادین، ابو سریحہ، سالم مولی ابوحذیفہ، زید بن خطاب وغیرہ۔([7])

نبی کریم ﷺ اور اصحابِ صفہ

آپﷺ ہمیشہ صفہ والوں کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔  اکثر  آپ ان کو گھر بلاتے۔ اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو ساری ہی بھیج دیتے۔  اگر کہیں دعوت دی جاتی تو ان کو شریک کرتے۔ ایک مرتبہ کہیں سے دو دھ بھرے برتن کا تحفہ آیا۔ آپ نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا: ’’صفہ والوں کو بلا لاؤ۔‘‘ اس برتن سے  سب نے سیر ہوکر دودھ پیا۔  یہ معجزۂ نبی تھا جس کا ظہورا ُس موقع پر  ہوا۔ آپ کے پاس جو بھی کھانا آتا ا ن کو بھی كھالنے میں شریک کرتے۔ آپ نے اللہ کی قسم اٹھا کر فرمایا : لانخفی عنکم شیئا، ’’ہم آپ سے علیحدہ کچھ بھی نہیں کھاتے۔‘‘ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ بھوک کی وجہ سے دورانِ نماز میں گر پڑے۔ لوگوں نے سوچا ان کو کوئی بیماری ہے یا آسیب کا اثر ہے۔ کبھی بےاختیار بھوک سے ان کی چیخیں نکل جاتیں۔ یہ حالت تمام اصل صفہ کی تھی لیکن وہ حضرات تمام تکالیف رضائے الٰہی، رضائے مصطفیٰ، دین کی سربلندی، حصولِ تقویٰ، حصولِ علم، عبادت، جہاد فی سبیل اللہ  کی خاطر برداشت کرتے تھے۔ آپ ان کی حوصلہ افزائی کرتے، ان کے پاس جاتے، ان کو اپنے پاس بٹھاتے اور ان کو تعلیم دیتے تھے۔

ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ الزہرا حاضر خدمت ہوئیں۔ عرض کیا  چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ آپ ان کے  پاس ان کے گھر  تشریف لے گئے۔ وہ اپنی چارپائی پر بیٹھی تھیں، آپ ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا: ألا أولکما علی شیءٍ  خیر لکما من خادم ’’کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : ’’کیوں نہیں، یا رسول اللہﷺ! فرمایا: جب تم اپنے بستر  پر جاؤ تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہا کر  و، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر۔ اور اپنے داماد اور بیٹی سے فرمایا میں تمہیں نہیں دے سکتا اس حال میں کہ اہلِ صفہ کو چھوڑ دوں اور ان کے پیٹ بھوک سے بے چین ہوتے رہیں۔(لاأعطیکم وأدع أھل الصفۃ تلوی بطونہم من الجوع ) آپؐ صحابہ کرامؓ کو بھی اہل صفہ کی پرورش اور خدمت پر ابھارتے تھے۔ 

آپ نے فرمایا:

مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ

تم میں سے جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو، وہ تیسرے  کو بھی ساتھ لے لے۔ اگر چار کا ہو تو پانچویں اور چھٹے کو ساتھ لے لے۔

صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب شام کو ان کے پاس سے گزرتے تو کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ ان طالب علموں کے لیے پانی لاکر مسجد میں رکھتے، یہاں تک کہ بعض غریب انصاری خود سارا دن مزدوری کرکے رات کو وہ مزدوری ان اہل صفہ کو دے جاتے تھے۔

مدنی  معاشرے کی باہمی محبت، انس اور غمگساری کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص دوسرے کا خیال رکھتا۔ غریب پروری عام تھی۔ دوسرے کے مہمان کو اپنا مہمان سمجھا جاتا تھا۔

تحویلِ قبلہ

۱۵ شعبان۲ ھ ۱۹ فروری ۶۲۴ء كو اللہ تعالی نے بیت المقدس سے كعبہ شریف كو قبلہ بنانے كا حكم دیا، اور دوران نماز ہی صفیں پھر گئی یہ تاریخی واقعہ جب پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عمر مبارك ۵۴ سال ۵ ماہ تھی۔

کعبہ شریف  مکعب کی شکل میں اللہ کا پہلا گھر ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ([8])

جب نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ  میں رہتے تھے تو مقام ابراہیم کے پاس نماز  پڑھتے تھے جہاں سے بیت اللہ شریف اور مسجد اقصیٰ دونوں سامنے رہتے تھے۔ مدینہ منورہ سے بیت المقدس شمال کی طرف ہے جب کہ بیت اللہ شریف جنوب میں ہے چنانچہ اب یہ ممکن نہ ہوتا کہ بیک وقت دونوں کو سامنے رکھا جاسکتا۔

بیت اللہ  شریف ابراہیم اور اسماعیل علیہماالسلام نے بنایا تھا اور اہل مکہ کے مشرکین اس کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے جب کہ یہودو نصاریٰ بیت المقدس کو قبلہ مانتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ پہنچنے کے بعد تقریباً ۱۶ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں لیکن آپ مسلسل آسمان کی طرف چہرہ مبارک اٹھا کر اس مسئلے کے حل کے لیے   اللہ سے دعائیں کرتے تھے  اوراس کی مدد طلب فرماتے تھے۔

دوسرا یہ کہ آپﷺ ہجرت ِمدینہ كے بعد یہود و نصاریٰ کے عمل میں مطابقت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو ہدایت فرماتے تھے  کہ خالفوا یھود والنصاری ’’یہودو ونصاری کے خلاف عمل کرو‘‘  جیسے یہودی مونچھیں بڑی اور ڈاڑھی چھوٹی  رکھتے تھے، آپ نے فرمایا ’’ڈاڑھی بڑی اور مونچھیں چھوٹی رکھو، یہود بائیں طرف مانگ نکالتے تھے آپؐ نے درمیان سے مانگ نکالنے کو سنت قرار دیا۔ یہودی جلدی سحری کرتے تھے آپؐ نے فرمایا آخر وقت میں سحری کرو۔ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے آپ نے فرمایا عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو تاکہ یہودیوں سے مطابقت نہ ہو۔ اب قبلہ کا معاملہ درپیش تھااور اس پر آپ کی بے چینی کا نقشہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ  نے قرآن کریم میں یوں کھینچا ہے:

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ([9])

یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہےہیں لو ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔

یوں منشا ءنبوی کے مطابق یہ حکم ربانی نازل ہوا اور ۲ھ کے رجب یا شعبان کی ایک دوپہر کو اللہ تعالیٰ نے دورانِ نمازِ ظہر قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل فرما دیا۔

ابن سعد نے طبقات میں بیان کیا ہے کہ بشر بن براء بن معرور  کے ہاں آپ دعوت پر تھے ا ور ظہر کی نماز کی دو رکعات ادا کر چکے تھے کہ یکا یک وحی کے ذریعے سے مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اورآپ دورانِ نماز ہی بیت المقدس سے بیت اللہ شریف کی طرف مڑ گئے۔([10])

اس کے بعد مدینہ کے  تمام علاقوں میں منادی کرادی گئی اورسب لوگوں نے مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرےکے نماز ادا کرنا شروع کردی۔ براء بن عازب کہتےہیں کہ ایک جگہ منادی کرنے والا اس حال میں پہنچا کہ لوگ نماز عصر ادا کررہے تھے جب اعلان کی آواز سنی تو دورانِ نماز ہی میں امام اور مقتدی شمال سے جنوب کی طرف مڑ گئے  یعنی امام جو سب سے آگے تھا اسے چل کر سب سے پیچھے جانا پڑا اور تمام صفیں بھی الٹی پھر گئیں۔ ظاہر ہے اس دوران میں صحابہ کرام کو چلنا بھی پڑا ہوگا۔ اس طرح دوسرے دن فجر کے وقت  اہل قباء کے پاس پیغام پہنچا توانہوں نے نماز مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرکے ادا کی۔ مدینہ منورہ کی تمام مساجد کے محراب اس طرف ہوگئے جس طرف دروازے تھے اور دروازوں کو محرابوں کی جگہ کرنا پڑا۔



[1]           صحیح البخاری،حدیث نمبر:2048۔

[2]           سورة الانفال: ۷۵۔

[3]           سیرت ابن ہشام:۱/ ۵۰۲، الرحیق المختوم میں اس كا اردو خلاصہ دیكھیے : ۱ /۲۵۹.

[4]           اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں میثاق مدینہ كے عنوان سے سیرحاصل بحث كی گئی ہے اس میں جو شرائط معاہدہ بیان ہوئی ہیں ان كا خلاصہ درج كیا گیا ہے۔

[5]           دیكھیے، شبلی نعمانی، سیرة النبی :۱/۱۶۴، الفیصل ناشران، لاہور،۱۹۹۱م۔

[6]           شبلی نعمانی، سیرۃ النبی 1/183۔

[7]           مزید تفصیل کےلیے دیکھیے :مسند احمد بن حنبل ۳۱۸۷۔

[8]           سورة آل عمران: ۹۶۔

[9]           سورة البقرہ : ۱۴۴۔

[10]         اس میں اختلاف ہے کہ آیا ظہر کی نماز کے دوران وحی آئی یا بعد میں۔ ابن کثیر کہتےہیں کہ  بعد میں وحی آئی تھی اور عصر کی نماز آپ نے مکہ مکرمہ کی جانب رخ کرکے ادا کی تھی۔ 

Post a Comment

0 Comments