سيرت طيبه انصار کے اوّلین گروہ کا قبولِ اسلام ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE

 






انصار کے اوّلین گروہ کا قبولِ اسلام

نبوت كے گیارہویں سال حج میں نبی كریم ﷺ حسب سابق منیٰ میں جمع ہونے والے عرب قبائل سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ عَقَبہ (گھاٹی) کے قریب قبیلہ خزرج کے چند لوگ باہم گفتگو میں مصروف تھے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا:

’’آپ کون لوگ ہیں؟‘‘

          انہوں نے کہا:

          ’’ہمارا تعلق خزرج سے ہے۔‘‘

           آپؐ نے فرمایا:

           ’’کیاآپ لوگ بیٹھیں گے کہ میں آپ سے کچھ بات کروں؟‘‘

           انہوں نے کہا:

           ’’ضرور۔‘‘

          چنانچہ وہ نبی کریم  ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔آپؐ نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی، اسلام کی تعلیمات کو ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔یہ سن کر ان لوگوں نے آپس میں کہا:

بھائیو! جان لو کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی آمد کے حوالے دے کریہود تمہیں ڈرایا دھمکایا کرتے تھے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ وہ تم سے سبقت لے جائیں۔

          چنانچہ انہوں نے پورے اطمینان کے ساتھ آپؐ کی دعوت قبول کرلی، آپؐ پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہوگئے۔ یہ کل چھ افراد تھے جن کے نام یہ ہیں:

 ۱:         اسعد ؓ بن زرارہ

           ۲:       (اور)عوف بن الحارثؓ۔بنی مالک بن النجار سے

           ۳:       رافع ؓ بن مالک۔بنی زریق سے

          ۴:       قطبہ ؓ بن عامر بن حدیدہ۔بنی سلمہ سے                 

          ۵:       عقبہؓ بن عامر بن نابی۔بنی حرام بن کعب سے

           ۶:       جابرؓ بن عبداللہ بن رئاب۔بنی عبید سے

          اس کے بعد انہوں نے عرض کیا:

 ہم نے اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہ ہوگی جس میں اس سے زیادہ باہمی عداوت اور دشمنی پائی جاتی ہو۔ شاید اللہ تعالیٰ آپؐ کی وجہ سے ان کو جمع کردے۔ ہم واپس جاکر انہیں آپؐ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور جو دین ہم نے قبول کیا ہے ان کے سامنے بھی پیش کریں گے۔اگر اللہ نے ان کو آپؐ پر جمع کردیا تو کوئی شخص آپ سے زیادہ معزز نہ ہو گا۔)[1](

 عقبہ کے مقام پر اسلام قبول کرنے والے یہ اوّلین مسلمان مدینہ واپس پہنچے اور دوسرے لوگوں سے آپؐ کا ذکر کیا اور اُن کو اسلام کی دعوت دی۔ چنانچہ وہاں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور انصار کا کوئی گھر ایسا نہ بچا جہاں محمد ﷺ کا ذکر نہ ہونے لگا ہو۔)[2](

حضرت عائشہ ؓ سے نکاح

اسی سال شوال ۱۱ نبوی میں نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ كے حكم كی بجاآوری كرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓسے نکاح فرمایا۔ پھر ہجرت کے پہلے سال شوال کے مہینے میں مدینہ میں ان کی رخصتی ہوئی۔

بیعت عَقَبہ اولیٰ

اولین چھ مسلمانوں کی تبلیغ کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ اگلے سال یعنی ۱۲ نبوی میں حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ آدمی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں پانچ آدمی وہی تھے جو پچھلے سال مسلمان ہوئے تھے۔ جابرؓ بن عبداللہ بن رئاب اس سال نہیں آئے تھے۔ باقی سات آدمی نئے تھے۔ ان میں سے پانچ خزرج کے اور دو اوس کے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں:

          ۱۔معاذ ؓبن الحارث

          ۲۔ ذکوان ؓ بن عبدالقیس

          ۳۔ عبادۃؓ بن صامت

          ۴۔ یزید ؓ بن ثعلبہ

          ۵۔ عباس ؓ بن عبادہ

          ۶۔ ابوالہیثم ؓبن التّھیّان

          ۷۔ عویم ؓبن ساعدہ

          ان لوگوں سے نبی کریم  ﷺ نے اس موقع پر جو بیعت لی وہ بیعت نساء کے نام سے مشہور ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بیعت کے الفاظ سے بہت مشابہ ہے جو اس واقعہ کے کئی سال بعد قرآن مجیدکی، سورۃ ممتحنہ آیت ۱۲ میں مسلمان عورتوں سے بیعت لینے کے لیے تجویز کیے گئے۔ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے ہم سے اس بات پر بیعت لی:

یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گے ( یعنی کسی پر جھوٹا الزام نہ لگائیں گے) اور یہ کہ کسی بھلی بات میں نبی کریم  ﷺ کی نافرمانی نہ کریں گے۔ اور آپؐ کا حکم سنیں گے اور مانیں گے خواہ ہم خوش حال ہوں یا تنگ حال اور خواہ وہ حکم ہمیں گوارا ہو یا ناگوار، اور خواہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے، اور ہم حکومت کے معاملہ میں اہل حکومت سے نزاع نہ کریں گے۔ (مسند احمد میں اضافہ ہے کہ اگرچہ تم سمجھتے ہو کہ حکومت میں تمہارا حق ہے، اور بخاری میں یہ اضافہ ہے کہ الا یہ کہ تم کھلا کھلا کفر دیکھو) اور   یہ کہ جہاں اور جس حال میں بھی ہوں حق بات کہیں گے اور ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ (پھر آپؐ نے فرمایا)ا گر تم نے اس عہد کو وفا کیا تو تمہارے لیے جنت ہے اور کسی نے ممنوع کاموں میں سے کسی کا ارتکاب کیا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے عذاب دے، چاہے معاف کر دے۔ (ایک روایت میں ہے کہ اگر تم نے ان ممنوع کاموںمیں سے کسی کا ارتکاب کیا اور پکڑے گئے اور دنیا میں تم کو سزا دے دی گئی تو وہ اس کا کفارہ ہو گی اور اگر قیامت تک تمہارے فعل پر پردہ پڑا  رہ گیا تو تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے ہے چاہے سزا دے چاہے معاف کردے)۔ )[3](

مدینہ میں مبلغ اسلام

          بیعت مکمل ہو گئی اور حج کا زمانہ اختتام کو پہنچ گیا۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے تو نبی کریم  ﷺنے ان کے ساتھ حضرت مصعبؓ بن عمیر کو  بھیجا تاکہ ان کو قرآن کی تعلیم دیں، اسلام سکھائیں اور ان کے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں۔ مدینہ میں حضرت مصعب ؓ، حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھہرگئے اور دونوں نے مل کر اسلام کی تبلیغ پُر جوش انداز میں شروع کی۔ انصار نے حضرت مصعب ؓ کی قیادت میں بڑی تیزی کے ساتھ اسلام کی اشاعت کی۔ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز اسعد ؓ بن زرارہ حضرت مصعبؓ کو ساتھ لے کر بنی ظفر کے باغوں میں سے ایک باغ میں گئے۔ وہاں چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبدالاشہل کے دونوں سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہیں جب یہ خبر پہنچی تو سعد نے اسید سے کہا:

 ذرا ان دونوں (یعنی اسعدؓ اور مصعب ؓ) کے پاس جاؤ جو ہماری بستیوں میں آکر ہمارے کمزور لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں اور ان کو ڈانٹ کراپنے علاقے میں آنے سے منع کر دو۔ اگر اسعد بن زرارہ کا معاملہ نہ ہوتا تو میں خود جاتا، مگر تم جانتے ہو کہ وہ میری خالہ کا لڑکا ہے اور میں اس کا سامنا کرنے سے بچنا چاہتا ہوں۔

اس پر اسید نے اپنا نیزہ اٹھایا اور ان دونوں کے پاس جا پہنچے۔ اسعد ؓ نے ان کو آتے دیکھ کر حضرت مصعب ؓ سے کہا:

یہ اپنی قوم کا سردار آرہا ہے۔ اس کے معاملے میں ٹھیک ٹھیک اللہ کی بات پہنچانے کا حق ادا کر دو۔

 حضرت مصعب ؓ نے کہا:

          ’’اگریہ بیٹھ گئے تو میں بات کروں گا۔‘‘

           اسیدؓ ان کے پاس آکر ٹھہر گئے اور انتہائی سخت لہجے میں کہا:

 تم لوگوں کو کیا چیز ادھر لے کر آئی ہے۔ تم ہمارے کمزور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو۔ اگر اپنی جان عزیز ہے تو ادھر کارخ نہ کرنا۔

حضرت مصعب ؓنے ان سے کہا:

کیا آپ بیٹھ کر ہماری بات نہ سنیں گے؟ اگر پسند آئے تو قبول کرلیجیے اور اگر پسند نہ آئے تو جو کام آپ کو ناپسند ہوگا،اس سے آپ کو دور رکھاجائے گا۔

          ’’یہ تم نے انصاف کی بات کی۔ ‘‘اسید نے کہا اور اپنا حربہ زمین میں گاڑھ کر بیٹھ گئے۔

          حضرت مصعبؓ نے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت فرمائی اور اسلام کی تعلیمات پیش کیں۔ حضرت اسعد ؓاور حضرت مصعبؓ کا بیان ہے کہ’’اللہ کی قسم، اسیدؓ کے چہرے کی بشاشت اور ان کے اندازِ کلام کی نرمی دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ اسلام ان کے اندر اتر گیا ہے۔‘‘ پوری بات سننے کے بعد اسیدنے کہا:

’’کیسا عمدہ اور حسین کلام ہے۔ جب تم لوگ اس دین میں داخل ہوتے ہو تو کیا کرتے ہو؟‘‘

          انہوں نے کہا:

           ’’غسل کرکے اپنے جسم کو پاک کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں اور اس کے بعد نماز پڑھیں۔‘‘

           چنانچہ وہ اسی وقت اٹھے، پاک صاف ہو کر آئے، کلمہ شہادت ادا کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر بولے:

 میرے پیچھے ایک آدمی ہے اگر اس نے تمہاری پیروی اختیار کرلی تو اس کی قوم میں سے ایک آدمی بھی اس کے خلاف عمل نہ کرے گا۔ میں جاکر اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔

اس کے بعد انہوں نے اپنا نیزہ اُٹھایا اور پلٹ کر حضرت سعدؓ بن معاذ کے پاس جا پہنچے۔ اس وقت ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ سعد نے ان کو آتے دیکھ کر کہا: ’’اللہ کی قسم یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لیے ہوئے اسید گئے تھے۔‘‘ جب حضرت اسیدؓ مجلس کے پاس آن کھڑے ہوئے توسعدنے پوچھا کہو کیا کرآئے؟ انہوں نے کہا:

 میں نے دونوں آدمیوں سے بات کی، مجھے تو ان میں کوئی خرابی نظر نہ آئی۔ میں نے ان کو منع کیا تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ آپ چاہتے ہیں ہم وہی کریں گے۔

          پھرذرا  رک کر  کہا:

 میں نے سنا ہے کہ بنی حارثہ اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد تمہارا خالہ زاد بھائی ہے اور وہ اس طرح تمہاری تذلیل چاہتے ہیں۔

 یہ سنتے ہی سعد فوراً غصے میں اٹھے اور اپنا حربہ لے کر سیدھا ان دونوں کے پاس جا پہنچے۔ حضرت اسعدؓ نے دورسے ان کو آتے دیکھ کر حضرت مصعبؓ سے کہا:

 یہ اپنے قبیلے کا سردار ہے جس کے پیچھے اس کی ساری قوم ہے۔ یہ مسلمان ہوگیا تو کوئی دو آدمی بھی ایسے نہ رہیں گے جو اس کی قوم میں سے اسلام قبول نہ کر لیں۔

          وہاں پہنچ کر جب سعد نے دیکھا کہ اسعدؓ اور مصعب ؓ دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں تو سمجھ گئے کہ اسید کا مقصد دراصل انہیں ان کی بات سنوانا تھا۔ وہ غضب ناک انداز میں کھڑے ہوئے اور اسعد بن زرارہ سے کہا:

ابوامامہ، باللہ اگر میرے اور تمہارے درمیان قرابت نہ ہوتی تو یہ شخص (یعنی مصعب ؓ) مجھ سے نہ بچ سکتا تھا۔ کیا تو ہمارے اوپر ایسی چیز مسلط کرنا چاہتا ہے جو ہمیں پسند نہیں۔

           حضرت مصعب ؓ نے ان سے کہا:

کیا آپ بیٹھ کر ہماری بات نہ سنیں گے؟ اگر اچھی لگے تو قبول کریں اور اگر پسندنہ آئے تو ہم آپ سے اس چیز کو دور رکھیں گے جو آپ کو پسند نہ ہو۔

           سعد نے کہا، یہ تم نے انصاف کی بات کی پھر اپنا نیزہ زمین میں گاڑھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب ؓ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ حضرت اسعد ؓ اور حضرت مصعب ؓ  کا بیان ہے کہ ان کے چہرے کی چمک دمک دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ اسلام ان پر اثر کرگیا ہے۔ سعد نے پوری بات سن کر کہا:

          ’’اس دین میں داخل ہونے کے لیے تم لوگ کیا کرتے ہو؟‘‘

           حضرت مصعب ؓ نے ان سے وہی بات کہی جو حضرت اسید ؓسے کی تھی چنانچہ انہوں نے غسل کیا، کلمہ شہادت ادا کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور اپنا نیزہ اٹھا کر اپنے قبیلے کی مجلس کی طرف پلٹ گئے۔ ان کو آتا دیکھ کر مجلس کے لوگ بول اٹھے:

          ’’ باللہ یہ وہ چہرہ نہیں جسے لے کر سعد گئے تھے۔‘‘

           انہوں نے آتے ہی کہا:

           ’’اے بنی عبدالاشہل تم اپنے درمیان میرے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘

 سب نے کہا:

آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے زیادہ صلۂ رحمی کرنے والے ہیں۔ ہم میں سب سے بڑھ کر صائب الرائے اور سب سے زیادہ عقل اور تجربہ ر کھنے والے ہیں۔

 یہ جواب سن کر حضرت سعدؓ بولے:

 تمہارے مردوں اور تمہاری عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ۔

اس کے بعد شام ہونے سے پہلے بنی عبدالاشہل کے سب مرد و عورت مسلمان ہوگئے۔ صرف ایک آدمی عمرو بن ثابت رہ گئے تھے۔ وہ عین غزوہ احد کے موقع پر ایمان لائے اور ایک سجدے کی نوبت آنے سے پہلے شہید ہوگئے۔ اور نبی کریمؐ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’وہ جنتی ہے۔‘‘)[4](

حضرت مصعب ؓ مدینے میں مسلسل تبلیغ کرتے رہے یہاں تک کہ انصارِ مدینہ کے گھرانوں میں سے کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں موجود نہ ہوں۔ چند گھرانے ایسے رہ گئے جنہوں نے غزوہ خندق تک اسلام قبول نہ کیا۔

بیعتِ عَقَبَہ ثانیہ

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج میں، مدینہ کے ستر سے زیادہ مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ اِس سے قبل انصار کے ہر گھر میں نبی کریمؐ  کا چرچا ہوچکا تھا اور خاصی معقول تعداد میں لوگ مسلمان ہوچکے تھے۔ ایک روز وہ سب جمع ہوئے اور آپس میں بات کی کہ آخر کب تک نبی ﷺکو اس حالت میں چھوڑیں گے کہ آپؐ مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکر یں کھاتے پھریں اور آپؐ کو کہیں امن میسر نہیں۔چنانچہ جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو انہوں نے خفیہ طور پر نبی کریم  ﷺسے رابطہ کیا اور اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ ایام تشریق کے درمیانی دن، ۱۲ ذی الحج کو منیٰ میں جمرۂ اولیٰ، یعنی عَقَبَہ کے نشیبی حصہ میں رات کی تاریکی میں خفیہ طورپر جمع ہوں۔ اس تاریخی اجتماع کی روداد اس کے راوی حضرت کعب بن مالک ؓنے بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ:

ہم لوگ حج کے لیے نکلے، ر سول اللہ ﷺ سے ہمار ی ملاقات عقبہ میں ایام تشریق کے درمیانی روز طے ہوئی۔ بالآخر وہ رات آگئی جس میں آپؐ سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبداللہ بن حرام بھی تھے۔ ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا، ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم نے ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھا تھا۔ ہم نے عبداللہ بن حرام سے کہا کہ آپ ہمارے اشراف اور سرداروں میں سے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ جہنم کا ایندھن بنیں۔ پھر ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور ان کو بتایا کہ اس وقت ہماری ملاقات عقبہ میں نبی کریمﷺسے طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ کی بیعت میں شریک ہوئے۔ پھر ہم چھپتے چُھپاتے طے شدہ وقت پر عقبہ میں جمع ہوگئے۔ہم کل ۷۵ افراد تھے۔۷۳ مرد اور ۲ عورتیں۔ایک نسیبہؓ بنت کعب اور دوسری اسماؓ بنت عمرو۔ جب ہم سب گھاٹی میں جمع ہوگئے تو نبی  کریمؐ  کو اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ موجود پایا۔ نبی کریمﷺاپنے معاملات میں ان پر اعتماد کیا کرتے تھے حالانکہ ابھی وہ بظاہر غیر مسلم تھے لیکن چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملے میں موجود رہیں اور اہل مدینہ سے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ جب مجلس مکمل ہوگئی تو سب سے پہلے عباسؓ نے گفتگو کا آغاز کیا اور اس نازک موقع کا احساس اہل مجلس کو دلایا۔انہوں نے کہا:

اوس و خزرج کے لوگو! محمدؐ کی جو حیثیت ہمارے ہاں ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے وہ لوگ جو دینی نقطہ ٔ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں( یعنی غیر مسلم ہیں) ہم نے محمدؐ کو ان سے محفوظ رکھاہے، اس لیے وہ اپنی قوم میں ایک مضبوط حیثیت رکھتے ہیں اور اپنے شہر میں طاقت و حفاظت کے اندر ہیں۔ لیکن وہ تمہارے ساتھ جانے کے سوا کسی اور بات پر راضی نہیں ہیں۔اب اگر تم لوگ سمجھتے ہوکہ جو عہدو پیمان تم ان کے ساتھ باندھ رہے ہو اسے نبھا لو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچا لو گے تو جو ذمہ داری تم اٹھارہے ہو، اسے اٹھالو۔ لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد چھوڑ کر  کنارہ کش ہو جاؤ گے اور دشمنوں کے حوالے کر دو گے تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ ابھی سے انہیں چھوڑ دو کیونکہ وہ اپنی قوم میں مضبوط حیثیت اور اپنے شہر میں محفوظ مقام رکھتے ہیں۔

انصار نے کہا:

ہم نے بات سن لی، اے اللہ كے رسول اب آپ ارشاد فرمائیے اور ہم سے جو عہد وپیمان لینا ہے، لیجیے۔

 اس کے بعد نبی ﷺنے گفتگو فرمائی۔ آپؐ نے سب سے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف رغبت دلائی اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ چستی اور سستی ہر حال میں سنو گے اور عمل کرو گے تنگی اور خوشحالی ہر حال میں خرچ کرو گے نیکی کا حکم دو گے برائی سے روکو گے اللہ کی راہ میں اٹھ  کھڑے ہو گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرو گے۔ جب میں تمہارے پاس آ جاؤں گا تو تم میری حمایت و حفاظت اسی طرح کروگے جیسے خود اپنے بال بچوں کی کرتے ہو۔

 اس پر براء ؓ بن معرور نے آپؐ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:

جی ہاں، اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپؐ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، ہم آپؐ کی ہر اس چیز سے حفاظت کریں گے جس سے ہم خود اپنی جان اور اپنی آل اولاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ لہٰذا اے اللہ کے رسول، ہم سے بیعت لے لیجیے۔ہم جنگ کے بیٹے ہیں، ہم نے اپنے باپ دادا سے اس کو وراثت میں پایا ہے۔

 براء نبی کریم  ﷺ سے بات کررہے تھے کہ ابولہیثم ؓ بن تیہان بیچ میں بات کاٹ کر بولے:

یا رسول اللہﷺ! ہمارے اور دوسرے لوگوں (یعنی یہود) کے درمیان حلیفانہ تعلقات ہیں جن کو اب ہم کاٹ دینے والے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ جب اللہ تعالیٰ آپؐ کو غالب کر دے تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم میں واپس تشریف لے جائیں؟‘‘

یہ سن کر نبی مہربان ﷺ نے تبسم فرمایا، پھر جواب دیا:

 نہیں بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون ہے (یعنی میرا مرنا اور جینا تمہارے ساتھ ہے)،میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔ جس سے تمہاری جنگ ہے اس سے میری جنگ ہوگی اور جس سے تمہاری صلح اس سے میر ی صلح۔‘‘ )[5] (

جب بیعت کی شرائط مکمل ہو چکیں اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو بیعت کی نزاکت اور اس کے نتیجے میں آنے والے خطرات کو اچھی طرح سمجھانے کے لیے  دو اصحاب ان کے سامنے کھڑے ہوئے۔ ان میں سے ایک عباسؓ بن عبادہ بن نضلہ تھے۔ انہوں نے کہا:

 ’’خزرج کے لوگو! تم لوگ جانتے ہو کہ اس ہستی سے کس بات پر بیعت کررہے ہو؟‘‘

 سب نے کہا: ’’ہاں۔‘‘

  عباسؓ نے کہا:

 تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اب اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کر دیا جائے گا اور تمہارے اشراف اور سردار قتل کردیے جائیں گے اور اس خطرے کی بنا پر تم ان کو دشمنوں کے حوالے کر دو گے اور ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو بہتر یہی ہے کہ آج ہی انہیں چھوڑدو، کیونکہ اللہ کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی۔ لیکن اگر تم سمجھتے ہوکہ اموال کی تباہی اور اشراف کی ہلاکتوں کے باوجود تم ان کے ساتھ عہد وپیمان کو نبھاؤ گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو۔ اللہ کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

          اس پر سب بالاتفاق بولے:

          ’’ہم مال کی تباہی اوراشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔‘‘

 اس کے بعد لوگوں نے عرض کیا:

          ’’یارسول اللہ! اگر ہم اپنے اِس عہد کو پورا کردیں تو ہمیں کیا ملے گا؟‘‘

           آپؐ نے فرمایا:

           ’’جنت۔‘‘

اس پر ہم اٹھ کر آپؐ کی طرف بڑھے کہ بیعت کریں تو اسعد ؓ بن زرارہ نے، جو ان ستّر(۷۰) آدمیوں میں سب سے کم عمر اور کم سن تھے، آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے:

 اہل یثرب ذرا ٹھہر جاؤ، ہم اپنے اونٹ دوڑاتے ہوئے ان کے پاس اس کے سوا کسی اور وجہ سے نہیں آئے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی، اس کے نتیجہ میں تمہارے بچے قتل کیے جائیں گے اور تلواریں تمہارا خون بہانا چاہیں گی۔ لہٰذا اگر تم یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہو تب تو انہیں لے چلو اور تمہارا اجر اللہ کے ذمہ ہے، لیکن اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو، اور صاف صاف عذر کردو کیونکہ اس وقت کا عذر کرنا اللہ کے نزدیک قابل قبول ہوگا۔‘‘

 اس پر سب لوگوں نے کہا:

’’اسعد ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ، اللہ کی قسم ہم اس بیعت کو ہر گز نہ چھوڑیں گے اور نہ اس سے ہاتھ کھینچیں گے۔‘‘

 اس کے بعد سب سے پہلے اسعدؓ بن زرارہ نے بیعت کی اور پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ تمام افراد ایک ایک کرکے اٹھے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ باقی دو عورتیں جو اس موقع پر حاضر تھیں، ان سے زبانی بیعت ہوئی کیونکہ نبی ﷺنے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔

          بیعت مکمل ہو چکی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اپنے اندر سے مجھ کو بارہ نقیب منتخب کرکے دو جو اپنے اپنے قبیلے کے ذمہ دار ہوں۔ آپؐ کے ارشاد پر فوراً نقیبوں کا انتخاب عمل میں آیا۔ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے منتخب کیے گئے جن کے نام یہ ہیں:

خزرج میں سے:

۱۔       اسعد ؓ بن زرارہ

          ۲۔       سعد ؓ بن ربیع

          ۳۔      عبداللہ ؓ بن رواحہ

          ۴۔      رافع ؓ بن مالک

          ۵۔       براء ؓ بن معرور

          ۶۔       عبداللہ ؓ بن عمرو بن حرام

          ۷۔      عبادہ ؓ بن صامت

          ۸۔      سعد ؓ بن عبادہ

          ۹۔       منذرؓ بن عمرو

اوس کے نقیب:

          ۱۔       اسید ؓ بن حضیر

          ۲۔       سعدؓ بن خیثمہ

          ۳۔      رفاعہ ؓ بن عبدالمنذر

          آپؐ نے ان نقباء سے فرمایا:

تم لوگ اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہو جیسے حضرت عیسیٰؑ کے کفیل ان کے حواری  تھے اور میں اپنی قوم کا کفیل ہوں۔

اس کے بعد نبی کریم  ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ اب تم لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف واپس چلے جاؤ۔



[1]           ابن ہشام : 2/55۔

[2]           ایضاً: 1/429۔

[3]           صحیح البخاری، حدیث نمبر: 4894۔

[4]           سیرة ابن ہشام:2/60۔

[5]           ابن سید الناس، عیون الأثر: 1/217۔

Post a Comment

0 Comments